ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2005 |
اكستان |
|
کے مال میں سے کوئی حصہ ظلم کرکے ناحق کھاجائو حالانکہ تم جانتے ہو''۔ چوری : ممکن ہے کوئی یہ خیال کرے کہ چوری کی سزا جسمانی کیوں رکھی گئی مالی کیوں نہیں رکھی گئی ،پھر جسمانی سزا بھی اس قدر شدید رکھی گئی ہے کہ اسے کام کے ہاتھ سے محروم کردیا جائے۔ سو اس کے بارے میں یہ عرض ہے کہ (١) چوری ایک ایسا مرض ہے کہ جس کے کرتے وقت خدا کی بعض صفات مثلاً قہر ،غضب، انتقام، حساب اور قیامت میں جواب دہ ہونے کا چورعملاً انکار کرتا ہے اور ذہناً وہ ان صفات سے غفلت برتتا ہے۔ رسول کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم نے زانی اور سارق کے بارے میں فرمایا کہ جس وقت وہ یہ کرتے ہوتے ہیں ان کا ایمان نہیں ہوتا لَا یَزْنِی الزَّانِیْ وَھُوَ مُؤْمِن ۔ وَلَایَسْرِقُ السَّارِقُ وَھُوَ مُؤْمِن اور ظاہر ہے کہ اگر کمالِ ایمان ہوتا تو وہ ایسا جرم نہ کرتا ۔ (٢) دوسرے کے ہاتھ کی کمائی کو اپنے ہاتھ سے چراکر اُسے محروم کردیتا ہے ۔ (٣) شدید ضرورت مند پر بھی رحم نہیں کھاتا۔ نہ اُسے غریب پر ترس آ تا ہے نہ مسافرپر۔ (٤) دوسرے کی قیمتی سے قیمتی اور خون پسینہ ایک کرکے کمائی ہوئی دولت کو کوڑیوں میں فروخت کرکے ضائع کردیتاہے اوراس طرح شدید دِل آزاری کا سبب بنتا ہے ۔ (٥) دوسرے کے گھر میں جاکر دوسرے کی مِلک پر قبضہ کرتاہے اوراگر وہ بیدار و متنبہ ہو جائے تو بسا اوقات نوبت قتل تک پہنچ جاتی ہے اوراس طرح گویا یہ جرم مالی ہی نہیں بلکہ جانی بھی ہوا ،آئے دن ایسے واقعات آپ اخبارات میں پڑھتے رہتے ہیں۔ (٦) چوری ایک ذہنی عیاشی ہوتی ہے ۔ چور اس کا عادی ہوتا ہے اس لیے بے ضرورت بھی کرتا ہے۔ موطا امام مالک میں ہے کہ : ''اہلِ یمن میں سے ایک شخص جس کا ہاتھ اور پائوں کٹا ہوا تھا ،حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ کے پاس آیا اُن ہی کے پاس ٹھہرا اور شکایت کی کہ یمن کے حاکم نے اس پر ظلم کیا ہے۔یہ شخص رات کو نماز پڑھا کرتا تھا ۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اُسے دیکھتے تھے تو اپنے دل میں