ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2005 |
اكستان |
|
حدیث ِ نظر ( حضرت احسان دانش ) بتوں سے پھر گیا دل، اب اُدھر دیکھا نہیں جاتا درِ مولیٰ پہ ہوں اورسُوئے دَر دیکھا نہیں جاتا رُخِ خیر البشر تو پھر رُخِ خیرالبشر ٹھہرا اِن آنکھوں سے درِ خیر البشر دیکھا نہیں جاتا ہزار آئینے برتے ہیں ہزار آئینہ بیں دیکھے ترے جلوئوں سے کوئی بہرہ وَر دیکھا نہیں جاتا اسی کوچے میں بیٹھا ہوں یہیں سے مرکے اُٹھوں گا گدا بے شک ہوں، کوئی اور دَر دیکھا نہیں جاتا میرے مولا رہوں کب تک میں اِن بے دین لوگوں میں کہ یہ جبرِ مسلسل عمر بھر دیکھا نہیں جاتا جو سمٹیں آنسوئوں کی جھالریں سب کچھ نظر آئے خطا کس کی ہے؟ جو اَے چشم تر دیکھا نہیں جاتا کبھی مہتاب کی صورت اُتر بھی آئو آنگن میں ستاروں کو مسلسل رات بھر دیکھا نہیں جاتا جو تو غفلت سے چونکے راہِ حق بھی خود بخود اُبھرے مُندی آنکھوں تماشائے سحر دیکھا نہیں جاتا ہزاروں اہلِ زر اِس آستاں پر سربزانو ہیں جہاں انسان کی قیمت ہے ، زر دیکھا نہیں جاتا دکھا بھی دے ، عطا کی ہے نظر جس کے لیے مجھ کو اُٹھا بھی دے حجاباتِ نظر دیکھا نہیں جاتا مسلسل ہو رہی جانے کیوں اُمت کی رُسوائی دعائوں میں یہ افلاسِ اثر دیکھا نہیں جاتا کھڑا ہوں کب سے محرابِ حرم کے سامنے دانش نظر رہ رہ کے اُٹھتی ہے مگر دیکھا نہیں جاتا