ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2005 |
اكستان |
|
فَاَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ رِیْحًا صَرْصَرًا فِیْ اَیَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِ یْقَھُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَخْزٰی وَھُمْ لَا یُنْصَرُوْنَ ۔( پ ٢٤ سورہ حٰم السجدة آیت١٦) '' توہم نے اُن پر ایک ہوائے تند ایسے دِنوں میںبھیجی جو منحوس تھے تاکہ ہم ان کو اس دنیوی حیات میں رُسوائی کے عذاب کا مزہ چکھادیں اورآخرت کا عذاب اور زیادہ رُسوائی کا سبب ہے اوراُن کومدد نہ پہنچے گی ''۔ تشریح : اصولِ اسلام اور احادیث ِ رسول ۖ سے ثابت ہے کہ کوئی دن یا رات اپنی ذات میں منحوس نہیں ہے ۔ قوم ِعاد پرہوا کے طوفان کو نحوست کے دنوں میںفرمانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ دن اُس قوم کے حق میں اُن کی بداعمالیوں کے سبب منحوس ہو گئے تھے ،اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ دن سب کے لیے منحوس ہوں۔ (تفسیر ِمظہری وبیان القرآن ۔معارف القرآن ج٧ ص٦٤٤ بتغیر) سَخَّرَھَا عَلَیْھِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّثَمٰنِیَةَ اَیَّامٍ حُسُوْمًا فَتَرَی الْقَوْمَ فِیْھَا صَرْعٰی کَاَنَّھُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَةٍ ۔( پ ٢٩ سورة الحاقة آیت ٧) '' اس تیز تُند ہوا کو اللہ تعالیٰ نے اُن پر سات رات اور آٹھ دن متواتر مسلط کردیا تھا، سو (اے مخاطب اگر) تُو(اُس وقت موجود ہوتا تو) اس قوم کو اس طرح سے گرا(پڑا ) ہوا دیکھتا کہ گویا وہ گری ہوئی کھجوروں کے تنے (پڑے)ہیں ۔ تشریح : اس آیت میں صراحت ہے کہ قوم ِعاد پر یہ عذاب سات رات اور آٹھ دن لگا تار رہا، لہٰذا جو لوگ ان دنوں کو منحوس قراردیتے ہیں اِس سے تو یہ لازم آتا ہے کہ کوئی دن بھی مبارک نہ ہو بلکہ تمام دن منحوس ہوں، کیونکہ ہفتہ کے ہردن میںاُن پر عذاب پایا جاتا ہے ۔ پس آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ جن دنوں میںاُن پر عذاب نازل ہوا تھا وہ دن عذاب نازل ہونے کی وجہ سے خاص اُن کے لیے منحوس تھے، نہ کہ سب کے لیے اوریہ عذاب گناہوں کی وجہ سے تھا، اس لیے نحوست کا مدار گناہ ہی ٹھہرے۔ کیا گھر، سواری اور عورت میں نحوست ہے؟ بعض احادیث سے کچھ لوگوں کو بظاہر یہ شبہہ ہو جاتا ہے کہ حضور ۖ نے بعض چیزوں (مثلاً گھر،