ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2005 |
اكستان |
|
ہل وعیال سمیت پہنچ گیا ۔فضل محمد مرض سے اِس قدر تنگ آچکا تھا کہ وہ موت کی دعائیں کرتا تھا چاہتا تھا کہ اسے کوئی مار ڈالے لیکن قدرت تو اِسے نمونہ عبرت بناناچاہتی تھی وہ زندہ سلامت لاہور پہنچ گیا ۔محلہ پرانی کچہری جالندھر کے تقریباً تمام افراد انجینئرنگ کالج کے ہوسٹل نزد ریلوے اسٹیشن عقب آسٹریلیا بلڈنگ میںیکے بعد دیگرے آکر مقیم ہوتے رہے۔ فضل محمدبھی بیوی بچوں سمیت وہاں آگیا، اُس کی حالت یہ تھی کہ دن رات بے چین وبے قرار رہتا تھا اورہر وقت تکلیف سے کراہتا رہتا تھا، اُس کی نیند حرام ہو چکی تھی۔ وہ ننگے بدن صرف ایک تہبند باندھے رہتا تھا۔ اس حالت میں وہ ایک ماہ لاہور میں مقیم رہا پھر وسط اکتوبر میں وہ لائلپور آگیا اور محلہ گورونانک پورہ گلی نمبر ٤ جہاں محلہ پرانی کچہری جالندھر کے رہنے والے بیشتر لوگ آباد ہوچکے تھے وہیں آگیا ۔اس کا مرض لاعلاج ہوچکا تھا یہاں چند ماہ بعد اُس کا اسی بیماری کی حالت میں انتقال ہوگیا ۔اُس کی میّت کی حالت ناگفتہ بہ تھی اُس کی لاش ایسی متعفن ہو گئی تھی کہ غسل دینے کو کوئی تیار نہیں ہوتا تھا ،بڑی مشکل سے لوگوں نے اپنے ناک منہ پر کپڑا باندھ کر یونہی پانی بہا دیا اور جلد از جلد قبرستان لے جا کر دفن کردیا۔ اب'' شمس الحق'' کا حال سنئے ۔ یہ شخص جالندھر سے لائلپور آکر آباد ہوا۔ یہاں آکربھی اُس نے مسلم لیگی کارکن کی حیثیت سے بڑھ چڑھ کر کام کرنا شروع کردیا۔ جلسوں میں بڑے زورشور سے تقریریں کیا کرتا تھا۔ اُس نے ایک اخبار انصاف بھی جاری کیا لیکن اس شخص کو کبھی چین نصیب نہ ہو سکا۔ راقم سطور نے بھی اس کو اچھی طرح دیکھا ہے ،وہ بڑا بد مزاج اور زبان دراز شخص تھا۔ بھائی عطاء الحق کا بیان ہے کہ میں ڈی ۔سی ۔ آفس میں بطورِ کلرک ملازم تھا، میرے پاس پریس سے متعلقہ کام بھی تھا۔ شمس الحق اخبار کے سلسلے میں اکثر میرے پاس آتا جاتا تھا۔ ١٩٤٩ء کی ابتدا ء کا یہ واقعہ ہے کہ اخبار کے ڈیکلریشن کے سلسلے میں وہ میرے پاس آیا اور تقریباً آدھ گھنٹہ کاغذات کی تکمیل کے سلسلے میں میرے پاس بیٹھا رہا۔ کاغذات مکمل کرنے کے بعد مجھے دے کر کچہری سے چلا گیا ، آخری دفعہ کچہری کے گیٹ پر اُسے دیکھا گیا۔ اُس کے بعد آج تک اُس کا پتہ نہیں مل سکا ۔ اس کے اغوا کی خبر آناً فاناً شہرمیں پھیل گئی۔ اخبارات میں ضمیمے شائع ہوئے پاکستان بھر میں پوسٹر لگے پتہ دینے والے کے لیے انعامات کا اعلان کیا گیا۔ انجمن مہاجرین جالندھر نے ملک گیر تحریک چلائی ،کئی وفد وزیر اعظم لیاقت علی خاں سے ملے، حکومت کی طرف سے یقین دہانیاں بھی ہوئیں لیکن مقبول ِبارگاہ رسالت مآب کی توہین کرنے والے شمی