ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2005 |
اكستان |
بھائی عطاء الحق صاحب کو یہ واقعہ خود عبدالرشید نے پنڈی میں سنایا۔عبدالرشید امرتسرمیں فروٹ کا کمیشن ایجنٹ تھا۔وہ تقسیم ملک کے بعد راولپنڈی میں مقیم ہوا، یہاں بھی وہ یہی کاروبار کرتا تھا۔ عبدالرشید نہایت صحت مند نوجوان تھا، اُس نے جان پر کھیل کر حضرت اقدس مدنی کی حفاظت کا فریضہ انجام دیا۔ مجمع ڈبے کے اندر داخل ہونے کی کوشش کررہا تھا۔ عبدالرشید ڈبے کے دروازے میں پائیدان پر ڈٹ کر کھڑا ہو گیا ،مسلم لیگی مجمع اِس پر ٹوٹ پڑا ،اوراس کو بے دریغ زدوکوب کیاحتٰی کہ اُس کے سامنے کے دودانت ٹوٹ گئے لیکن اس مردمجاہد نے حضرت مدنی کی طرف ہجوم کو بڑھنے نہ دیا حتی کہ گاڑی چل پڑی اور وہ پلیٹ فارم پار کرنے کے بعد گاڑی سے چھلانگ لگا کر نیچے اُترا۔ جب یہ گاڑی جالندھر ریلوے اسٹیشن پر پہنچی، یہاں کے مسلم لیگی کارکن بھی راجہ غضنفر علی خاں کے استقبال کے لیے پلیٹ فارم پر موجود تھے گاڑی رُکتے ہی گارڈ نے انہیں راجہ صاحب کے پروگرام کے التواء کی خبر دی اورحضرت مدنی کی نشاندہی کی جس پر وہ مجمع حضرت کے ڈبے میں جا پہنچا اور وہی طوفانِ بدتمیزی شروع کردیا۔ اس مجمع کے سرغنہ تین مسلم لیگی نوجوان'' شمس الحق عرف شمی ''، ''فضل محمد'' اور''فتح محمد''تھے۔ فضل محمد اورفتح محمد جالندھر کے محلہ پرانی کچہری اورشمس الحق عرف شمی محلہ عالی کا رہنے والا تھا۔ انہوں نے حضرت اقدس مدنی کی توہین میں کوئی کسر نہ چھوڑی ،گالیاں دیں ، گندی چیزیں پھینکیں ،حضرت کا تکیہ چھینا ٹوپی بھی اُتار پھینکی ،ریش مبارک نوچی اورشمی نے دست درازی بھی کی۔ حضرت مدنی صبر جمیل کی مجسم صورت بنے بیٹھے تھے۔ حضرت کے ساتھ ایک خادم بھی تھا، وہ اِس صورتحال کو برداشت نہ کر سکا ۔ اُس نے مزاحمت کا اِ رادہ کیا تو حضرت نے اُسے منع فرمادیا کہ تم خاموش رہو۔ اگر تم یہ برداشت نہیں کرسکتے تو دوسرے ڈبے میں چلے جائو،مجھے میرے حال پر چھوڑ دو، اِتنے میں گاڑی چل دی اورمسلم لیگی کارکن اپنے اپنے گھروں کو واپس آگئے ۔صبح کو ان مسلم لیگی کارکنوں نے فخریہ انداز میں رات کا واقعہ اپنے محلہ پرانی کچہری میں بیان کیا۔ اس محلہ میں خانقاہ عالیہ رائیپور (ضلع سہارنپور) سے تعلق رکھنے والوں کا ایک نہایت بااثر حلقہ تھا۔ یہاں قطب الارشاد حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائیپوری اور حضرت منشی رحمت علی صاحب قدس سرہما کی تشریف آوری ہوئی تھی، ان لوگوں نے جب حضرت اقدس مدنی کی توہین کا رُوح فرسا و اقعہ سُنا تو اُن پر اس کا نہایت شدید اثرہوا ۔ عبدالحق بن چوہدری فضل محمد (حال مقیم گلی نمبر٤محلہ گورونانک پورہ لائل پور ) نے فتح محمد کی زبانی گستاخانہ کلمات سنے تو وہ برداشت نہ کرسکے۔ انہوں نے موقع پر ہی اس کا گریبان پکڑلیا اور کہا کہ اب بتائو رات کیا قصہ ہوا تھا اورساتھ ہی زور دار تھپڑ