ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2005 |
اكستان |
نحوست تو تمہارے ساتھ ہی لگی ہوئی ہے ۔کیا اس کو نحوست سمجھتے ہو کہ تم کو نصیحت کی جاوے بلکہ تم (خود) حد (عقل وشرع) سے نکل جانے والے لوگ ہو (پس شریعت کی مخالفت سے تم پر یہ نحوست آئی اورعقل کی مخالفت سے تم نے اس کا سبب غلط سمجھا )''۔ تشریح : شاید رسولوں کو جھٹلانے اورکفر وعناد کی شامت سے قحط وغیرہ پڑا ہوگا یا رُسولوں کے سمجھانے پر آپس میں اختلاف ہوا۔ کسی نے مانا، کسی نے نہ مانا ، اس کو نامبارک کہا۔ یعنی تمہارے قدم کیا ئے ، قحط اور نااتفاقی کی بَلا ہم پر ٹوٹ پڑی ۔ یہ سب تمہاری نحوست ہے (العیاذ باللہ )ورنہ پہلے ہم اچھے خاصے آرام چین کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ پس تم اپنے وعظ و نصیحت سے ہم کومعاف رکھو ۔اگر یہ رَوش نہ چھوڑوگے اور وعظ ونصیحت سے باز نہ آئو گے تو ہم سخت تکلیف وعذاب پہنچا کر تم کو سنگسار کر ڈالیں گے ۔ ان رسولوں نے جواب میں کہا تمہارے کفر و تکذیب کی شامت سے عذاب آیا۔ اگرحق وصداقت کو سب مل کر قبول کرلیتے نہ یہ بُرا اِختلاف ہوتا، نہ اس طرح آفتوں میںمبتلا ہوتے ، پس نامبارکی اور نحوست کے اسباب خود تمہارے اندر موجود ہیں ۔ پھر کیا اتنی بات پر کہ تمہیں اچھی نصیحت و فہمائش کی اور بُرا بھلا سمجھا یا ، اپنی نحوست ہمارے سر ڈالنے لگے اور قتل کی دھمکیاں دینے لگے ۔ حقیقت یہ ہے کہ تم عقل وآدمیت کی حدود سے خارج ہو جاتے ہو ، نہ عقل سے سمجھتے ہو، نہ آدمیت کی بات کرتے ہو (تفسیر عثمانی بتغیر)۔ اِنَّآ اَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ رِےْحًا صَرْصَرًا فِیْ یَوْمِ نَحْسٍ مُّسْتَمِرٍّ( پ ٢٧ سورہ قمر آیت ١٩ ) ''ہم نے ان پر (یعنی قوم عاد کے لوگوں پر )ایک تیز وتند ہوا بھیجی ایک دوامی (مستقل) نحوست کے دن میں''۔ تشریح : یہ نحوست کا دن ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے انہی کے حق میں تھا ۔ یہ نہیں کہ ہمیشہ کے لیے وہ دن منحوس سمجھ لیے جائیں جیسا کہ جاہلوں میں مشہور ہے۔ اوراگروہ دن عذاب آنے کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے منحوس بن گیا ہے تومبارک دن کونسا رہے گا ؟ قرآنِ کریم میں صاف طورپر مذکورہے کہ وہ عذاب سات رات اور آٹھ دن برابر رہا(جیسا کہ آنے والی تفصیل سے معلوم ہوگا ) ۔اگریہی بات ہے تو بتلائیے اب ہفتہ کے دنوں میں کونسا دن نحوست سے خالی رہے گا؟(تفسیر عثمانی بتغیر)۔