ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2005 |
اكستان |
|
خشک سالی وغیرہ معمولی تکالیف اورسختیوں میں مبتلاء کیا تاکہ وہ خوابِ غفلت سے چونکیں ۔اور موسٰی علیہ السلام کی پیغمبرانہ نصیحتوں کو قبول کریں مگر وہ ایسے کب تھے ۔انہو ںنے ان تنبیہات کی کچھ پروا نہ کی بلکہ پہلے سے زیادہ ڈھیٹ، ہٹ دھرم اورگستاخ ہو گئے چنانچہ '' ثُمَّ بَدَّلْنَا مَکَانَ السَّیَِٔةِ الْحَسَنَةَ ''کے قاعدہ سے جب قحط وغیرہ دُورہوکر ارزانی اورخوشحالی حاصل ہوتی تو کہنے لگتے کہ دیکھو ہماری خوش قسمتی اورعقل مندی کے لائق تو یہ حالا ت ہیں ۔پھر اگر درمیان میں کبھی کسی ناخوشگوار اوربُری حالت سے دوچار ہونا پڑجاتا تو کہتے کہ ''یہ سب (معاذاللہ) موسٰی اوراُس کے رفقاء کی شومیِ تقدیر اورنحوست ہے '' حق تعالی نے اس کا جواب دیا اَلآ اِنَّمَا طٰئِرُھُمْ عِنْدَ اللّٰہِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَا ےَعْلَمُوْنَ''یعنی اپنی بدبختی اورنحوست کو مقبول بندوں کی طرف کیوںمنسوب کرتے ہو، تمہاری اس نحوست کا واقعی سبب تو اللہ کے علم میں ہے ''۔اور وہ تمہارا ظلم وستم اوربغاوت وشرارت ہے ،اسی سبب کی بناء پر اللہ تعالیٰ کے یہاں سے کچھ حصہ نحوست کا وقتی سزا اورتنبیہ کے طورپر تم کو پہنچ رہا ہے باقی تمہارے ظلم وکفر کی اصلی شومی ونحوست یعنی پوری پوری سزا تو وہ ابھی اللہ کے پاس محفوظ ہے جو دنیا میں یا آخرت میں اپنے وقت پرتم کوپہنچ کر رہے گی جس کی ابھی اکثر لوگوں کو خبر نہیں ۔ (تفسیر عثمانی بتغیر) لفظ'' طائر ''کے لغوی معنی پرندے جانور کے ہیں۔ عرب پرندہ جانوروں کے دا ہنی ، بائیں جانب اُترنے سے اچھی بُری فالیں لیاکرتے تھے ، اس لیے مطلق فال کو بھی ''طائر'' کہنے لگے ۔اس آیت میں طائر کے یہی معنی ہیں ۔ اورمطلب آیت کا یہ ہے کہ ان کی فال اچھی یا بُری جو کچھ بھی ہو وہ سب اللہ تعالیٰ کے پاس ہے جو کچھ اس عالم میں ظاہر ہوتا ہے سب اللہ تعالیٰ کی قدرت اور مشیت سے عمل میں آتا ہے ، نہ اُس میں کسی کی نحوست کا دخل ہے نہ برکت کا ، یہ سب اُن کی خام خیالی اور جہالت ہے جو پرندوں کے داہنے یا بائیں اُڑ جانے سے اچھی بُری فالیں لے کر اپنے مقاصد اور عمل کی بنیاد اس پر رکھتے ہیں۔ (معارف القرآن ج٤ ص٤٣، ٤٤ ) قَالُوْآاِنَّا تَطَیَّرْنَابِکُمْ لَئِنْ لَّمْ تَنْتَھُوْا لَنَرْجُمَنَّکُمْ وَلَیَمَسَّنَّکُمْ مِّنَّا عَذَاب اَلِیْم قَالُوْآ طَآئِرُکُمْ مَّعَکُمْ اَئِنْ ذُکِّرْتُمْ بَلْ اَنْتُمْ قَوْم مُّسْرِفُوْنَ ( پ٢٣ سورہ یٰس آیت ١٨، ١٩، ) ''وہ لوگ کہنے لگے کہ ہم تو تم کو منحوس سمجھتے ہیںاگر تم باز نہ آئے تو ہم پتھروں سے تمہارا کام تمام کردیں گے اورتم کو ہماری طرف سے سخت تکلیف پہنچے گی ۔ان رسولوں نے کہا کہ تمہاری