ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2005 |
اكستان |
فرمادیا کہ سب سے بڑی نحوست انسان کی اپنی بداعمالیوں اورفسق وفجور میں ہے (جوآج مختلف طریقوں سے گھر گھر میں ہورہے ہیں )،اپنے گناہوں کی نحوست کو دوسری چیزوں کی طرف ڈالنا ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک کالے حبشی شخص کو راستے میں ایک شیشہ پڑا ہوا ملا ، اُس حبشی نے اس سے پہلے کبھی اپنا چہرہ شیشہ میں نہیں دیکھا تھا ،اس حبشی نے پڑا ہوا شیشہ اُٹھا کر جب اس میں اپنا منہ دیکھا تو بہت بدنما اوربھدا محسوس ہوا ، ناک بڑی ، رنگ کالا ،وغیرہ ،تو اس حبشی کو اپناچہرہ بُرا معلوم ہوا اور فوراً غصہ میں آکر اُس شیشہ کو زمین پرپھینک مارا ، اورکہا کہ تو اتنا بدصورت اوربدنما ہے اسی لیے تو تجھے کسی نے یہاں پھینک رکھا ہے ۔تو جس طرح اُس نے اپنی بدصورتی کو شیشہ کی طرف منسوب کیا، اسی طرح دنیا میں لوگ اپنی بدعملی کی نحوست کو دوسری چیزوں کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ حقیقت میں عبادت مبارک چیز ہے اورگناہ منحوس چیز ہے جس کی چند مثالیںملاحظہ ہوں : قَالُوا اطَّےَّرْنَا بِکَ وَبِمَنْ مَّعَکَ قَالَ طٰئِرُکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ بَلْ اَنْتُمْ قَوْم تُفْتَنُوْنَ (پ ١٩ سورہ نمل آیت ٤٧ ) ''وہ لوگ کہنے لگے کہ ہم تو تم کو اور تمہارے ساتھ والوں کو منحوس سمجھتے ہیں (حضرت صالح علیہ السلام نے جواب میں فرمایا کہ تمہاری (اس) نحوست کا (سبب) اللہ کے علم میں ہے، بلکہ تم وہ لوگ ہو کہ (اس کفر کی بدولت ) عذاب میں مبتلاء ہوگے''۔ تشریح : یعنی وہ لوگ حضرت صالح علیہ السلام کو کہتے تھے کہ جب سے تیرا منحوس قدم آیا ہے اوریہ باتیں شروع کی ہیں ہم پر قحط وغیرہ کی سختیاں پڑتی جاتی ہیں اورگھر گھر میںلڑائی جھگڑے شروع ہوگئے ۔ حضرت صالح علیہ السلام نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ یہ سختیاں یا برائیاں میری وجہ سے نہیں تمہاری بدقسمتی سے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے تمہاری شرارتوں اوربداعمالیوں کے سبب سے مقدر کی ہیں۔ (تفسیر عثمانی بتغیر) وَاِنْ تُصِبْھُمْ سَیِّئَة یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰی وَمنْ مَّعَہ اَلآ اِنَّمَا طٰئِرُھُمْ عِنْدَاللّٰہِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ۔ ( پ٩ سورہ اعراف آیت ١٣١) ''اوراگر ان کو کوئی بدحالی پیش آتی تو موسیٰ اوران کے ساتھیوں کی نحوست بتلاتے، یاد رکھو کہ ان کی نحوست(کا سبب ) اللہ کے علم میں ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ''۔ تشریح : اللہ تعالیٰ نے موسٰی علیہ السلام کے زمانے میں فرعونیوں کو ابتدائی تنبیہ کے طورپر قحط ،