نیک نام ومعروف ہوئے، بہت سے دورِ افتادہ علاقوں میں پڑے ہوئے لوگ (جن کی صلاحیتوں کو زنگ لگ رہا تھا) ان کی توجہ اور دلچسپی سے قابل ذکر ولائق خدمت مقامات میں آکر افادہ وتعلیم کی خدمت میں لگ گئے، چھوٹوں کو آگے کرنا، ان کی ستائش، حوصلہ افزائی اور ہمت بڑھانا حضرت والد صاحب کی خاص ادا تھی۔ اپنے ہوں یا غیر ہر ایک کو اس کی استعداد کے مطابق میدانِ خدمت فراہم کردینا، اور اسے خوب سے خوب تر راہ پر لگادینا، ان کا خاص مشغلہ تھا۔ ان کا خاص معمول تھا کہ بااستعداد طلبہ کی بے حد تشجیع کرتے تھے، ان کو ذہنی فراغت فراہم کرنے کے لئے ان کے تمام تعلیمی مصارف برداشت کرتے تھے۔ فراغت کے بعد ان کو بہتر اداروں میں خدمت علم میں لگاتے تھے۔
محترم جناب مولانا قاری محمد انس صاحب لکھنوی زیدمجدہم (مقیم حال جدہ سعودی عرب) یہ نینی تال کی جامع مسجد میں امام وخطیب تھے، اور قرآن کریم عمدہ پڑھتے تھے؛ لیکن حالات کی ناسازگاری کی وجہ سے پورے عالم نہ بن سکے تھے۔ درجہ چہارم عربی تک پڑھ کر تعلیم چھوڑدی تھی، نینی تال کے ایک سفر کے دوران حضرت والد صاحبؒ سے ان کی ملاقات ہوئی، تو انہوں نے ان سے اس کا تذکرہ کیا، اس پر حضرت والد صاحبؒ نے فرمایا کہ آپ مع اہل وعیال مرادآباد آجائیں ، آپ کی تعلیم کی تکمیل اور اہل وعیال کی مکمل کفالت کا نظم ہم کریں گے، چناں چہ وہ مع اہل خانہ مرادآباد آگئے تو حضرت والد صاحبؒ نے مرادآباد کے مشہور مسلم محلہ ’’مانپور‘‘ کی ایک مسجد میں ان کو امامت اور اسی سے متصل رہائش کے لئے ایک مکان بھی دلوادیا؛ تاکہ وہ یکسوئی اور سکونِ خاطر کے ساتھ اپنی تعلیم کی تکمیل کرسکیں ۔
محترم قاری صاحب موصوف ۳؍سال تک جامعہ امدادیہ میں ماہر فن اساتذۂ کرام سے دل جمعی کے ساتھ تعلیم حاصل کرتے رہے، اس کے بعد انہوں نے دارالعلوم دیوبند سے دورۂ حدیث کیا، اور ایک سال مزید رہ کر افتاء کی تعلیم بھی حاصل کی۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد حضرت والد صاحبؒ نے جامعہ امدادیہ میں ان کو شعبۂ تجوید وقراء ت کا مدرس بنالیا، دورانِ