اس دور میں تمام خادمانِ دین وملت کے لئے خضر طریق اور مشعل راہ نمونہ ہے، یہی وجہ ہے کہ اکابر دیوبند، اکابر مظاہر، اکابر تبلیغ، اکابر ندوہ کے علاوہ جماعت اسلامی اور جماعت اہل حدیث کے اعیان کی بھی گاہے گاہے جامعہ عربیہ امدادیہ مرادآباد اور دارالعلوم الاسلامیہ بستی میں آمد ہوتی تھی، اور وہ حضرت والد صاحبؒ کے اس جذبے اور مزاجِ توسع سے بے انتہاء متأثر اور گہرا نقش لے کر جاتے تھے۔
جماعت اسلامی کے سابق امیر ڈاکٹر عبدالحق انصاری بستی سفر کے موقع پر دارالعلوم میں بھی تشریف لائے، ان کا خطاب رکھا گیا، انہوں نے اپنے تأثرات میں یہ جملہ بھی بطور خاص لکھا ہے:
’’دارالعلوم کی فضا اور اساتذہ میں جو وسعت قلبی دیکھی وہ یاد رہے گی‘‘۔
اسی طرح موجودہ امیر مولانا سید جلال الدین عمری مدظلہ بھی تشریف لائے، اور ان کا خطاب ہوا، انہوں نے بھی گراں قدر تأثرات رقم فرمائے، اس سے پہلے مرحوم افضل حسین صاحب قیم جماعت بار بار تشریف لایا کرتے تھے اور قیام بھی کرتے تھے۔
مشہور اہل حدیث عالم مولانا عبدالرؤف رحمانی مرحوم کا بھی والد صاحب سے خاص تعلق تھا، دارالعلوم بستی میں کئی بار ان کی تشریف آوری ہوئی۔
حضرت مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی رحمہ اللہ سابق امیر جماعت اسلامی، مولانا محمد یوسف اصلاحی زیدمجدہم، مولانا محمد احمد امیر جماعت حلقہ اترپردیش مغرب وغیرہ بار بار جامعہ امدادیہ مرادآباد آتے رہے، والد صاحب کی وسعت قلبی کا ایک مظہر یہ بھی تھا کہ دارالعلوم بستی کے قیام کے بعد ابتدائی دور میں اہل حدیث عالم مولانا ابوالعاص وحیدی کا بطور مدرس تقرر کیا انہوں نے ایک سال تک یہاں درس دیا۔
جماعت اسلامی اترپردیش مشرق کے امیر مولانا ولی اللہ سعیدی فلاحی بار بار دارالعلوم آتے رہے، ابھی والد صاحب کے انتقال کے بعد تعزیت کے لئے بھی تشریف لائے۔