ہونے کی وجہ سے ان کے بہت سے ایسے امور سے واقف ہوئے جن سے اولادیا شاگرد عام طور سے واقف نہیں ہوتے، انہوں نے ۹؍ سال کی عمر سے امام صاحب کی تاحیات خدمت کی، اس لیے ان کا بیان انتہائی معتبر تصور کیا جائے گا۔ انہوں نے مسائل میں جو کچھ نقل کیا ہے، درج ذیل ہے:
سألت أبا عبد اللہ عن الرجل یأخذ من عارضیہ قال: یأخذ من اللحیۃ ما فضل عن القبضۃ، قلت فحدیث النبی ﷺ : ’’ أحفوا الشوارب وأعفوااللحی‘‘ قال یأخذ من طولھا ومن تحت حلقہ ورأیت أبا عبد اللہ یأخذ من عارضیہ ومن تحت حلقہ۔ ۱؎
میں نے ابوعبداللہ ( یعنی امام احمد) سے سوال کیا کہ آدمی اپنے دونوں رخساروں سے بال کاٹے؟ آپ نے کہا ایک مٹھی داڑھی سے جو فاضل ہو کاٹے ۔ میں نے کہا:’’ تونبی کریم ﷺ کی حدیث’’ أحفواالشوارب وأعفوا اللحی‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے کہا: داڑھی کی لمبائی سے اور حلق کے نیچے سے کاٹے گا، اور میں نے ابوعبد اللہ کو دیکھا کہ وہ دونوں رخساروں سے اور حلق کے نیچے سے کاٹتے تھے۔
کشاف القناع عن متن الاقناع ۱/۷۵، اورالانصاف فی معرفۃ الراجع من الخلاف ۱/۱۲۱ میں بھی امام احمد بن حنبل کایہ عمل نقل کیا گیا ہے۔
فقہ حنبلی کی کتابوں میں یہی مسئلہ درج ہے کہ ایک مشت سے زیادہ کاکاٹ لینا مکروہ اور ناجائز نہیں ہے۔ الروض المربع میں ہے:
ولایکرہ أخذ ما زاد علی القبضۃ منھا وماتحت حلقہ۔۲؎
ایک مشت داڑھی سے جو زائد ہو اس کا اور حلق کے نیچے کا بال کا ٹنا مکروہ
------------------------------
۱؎ مسائل الامام احمد بن حنبل ۲؍۱۵۱، ۱۵۲
۲؎ الروض المربع بشرح زاد المستنقع ۱؍۲۰