قیل لمالک فاذا طالت جداً قال أری أن یؤخذ منھا وتقص۔۱؎
امام مالکؒ سے سوال کیا گیا، جب داڑھی بہت لمبی ہو جائے تو کیا حکم ہے؟ آپ نے کہا کہ میری رائے ہے کہ داڑھی سے کسی قدر کاٹ چھانٹ کرلینا چاہیے۔
قاضی ابو الفضل عیاض(متوفی ۵۴۴ھ) جو مالکیہ کے مشہور علماء میں سے ہیں اور اپنے وقت کے حدیث کے امام تھے، کہتے ہیں :
یکرہ حلقہا وقصہا وتحریقہا و أما الأخذ من طولھا وعرضھا فحسن، وتکرہ الشہرۃ فی تعظیمھا کما تکرہ فی قصھا وجزھا۔۲؎
داڑھی کا مونڈنا اور اس کو زیادہ کاٹنا چھانٹنا اور جلانا مکروہ ہے، رہا اس کے طول وعرض سے کسی قدر کاٹنا تو بہتر ہے، کیونکہ جس طرح داڑھی کو زیادہ کاٹنا مکروہ ہے ویسے ہی اس کو زیادہ لمبی بناکر شہرت کا باعث بننا بھی مکروہ ہے۔
دوسرے مشہور مالکی محدث وفقیہ قاضی ابو بکر بن العربی(متوفی ۵۴۳ھ) جامع ترمذی کی شرح میں رقمطراز ہیں :
ان ترک لحیتہ فلا حرج علیہ الا أن یقبح طولھا فیستحب أن یأخذ منھا۔۳؎
اگر اپنی داڑھی چھوڑ دے اور اس سے کوئی تعرض نہ کرے تو کوئی حرج نہیں الا یہ کہ بڑی ہوکر بری لگے تو اسے کاٹ لینا مستحب ہے۔
زرقانی(متوفی ۱۱۲۲ھ) کی تحقیق ہے کہ:
لأن الاعتدال محبوب والطول المفرط قدیشوہ الخلق ویطلق ألسنۃ المغتابین ففعل ذلک مندوب مالم ینتہ الی تقصیص
------------------------------
۱؎ المنتقیٰ ۷؍۲۶۶ ، نیز دیکھیے الاستذکار ج ۸ص ۴۲۹، دارالکتب العلمیۃ
۲؎ شرح صحیح مسلم ۳؍۱۵۱
۳؎ عارضۃ الاحوذی ۱۰؍۲۱۹،۲۲۰