ہمیں بتایا ہے کہ حضرت معاذ بن جبل صنے ارشاد فرمایا کہ کسی واقعہ کے ہونے سے پہلے اس کا حکم پوچھنے کی جلدی نہ مچاؤ ، ورنہ اِدھر اُدھر بہک جاؤگے بس خاموش رہو ، اگر ایسا ہوا تو مسلمانوں میں ہر دور میں ایسے علماء موجود رہیں گے کہ جب ان سے واقعہ ہونے کے بعد مسئلہ دریافت کیا جائے گا تو خدا کی طرف سے انھیں حق وراستی کی توفیق ملے گی ۔
اُغلوطات اور مشکل مسائل جن کا وقوع نہ ہوا ہو ان سے عالم کو اپنا دامن بچائے رکھنا ہی مناسب ہے ، ایسے مسائل تو شاید کبھی وقوع پذیر نہ ہوں ، لیکن لوگ بحث ونظر اور لڑائی جھگڑے میں ان کی وجہ سے الجھ کر جو علوم اہم اور ضروری ہیں ، ان سے رہ جائیں گے ، پھر اس بحث وجدال میں ہر شخص دوسرے کو خاطی قرار دے گا ، غلطیاں تلاش کرے گا ، اور بلاوجہ ایک دوسرے سے پوچھتا پھرے گا ، یہ سب باتیں مکروہ وممنوع ہیں ۔ ان سے دین وایمان میں کوئی نفع نہیں حاصل ہوگا ، نیز سلف صالح کا یہ طریقہ نہ تھا ، وہ لوگ ایک دوسرے کی خطائیں تلا ش نہیں کیا کرتے تھے اور نہ ان کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ غلطیوں پر گرفت کرتے رہیں ، وہ لوگ عالم تھے ، عاقل تھے ، ان کی باتیں خیرخواہی پر مبنی ہوتی تھیں ، اﷲ نے انھیں علم کا بھرپور نفع دیا تھا ۔
حضرت سعد بن وقاص ص کی روایت ہے کہ :
قال رسول اﷲ ﷺ إن أعظم المسلمین فی المسلمین جرماً رجلٌ سأل علیٰ أمرٍ لم یحرم فحرم من أجل مسألتہٖ۔
حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مسلمانوں کے حق میں سب سے بڑا مجرم وہ ہے جس نے کوئی ایسی بات دریافت کی جو حرام نہ تھی اور اس کے سوال کی وجہ سے حرام