اس کیفیت سے افاقہ پاتے ہیں تو پاکیزہ اعمال کے سہارے خدا کی جانب دوڑ پڑتے ہیں ، زیادہ عمل کرکے بھی زیادہ نہیں سمجھتے ، اور کم پر راضی نہیں ہوتے ، اپنے آپ کو خطاکار وگنہگار سمجھتے ہیں حالانکہ وہ اعلیٰ درجہ کے پاکدامن اور نیک ہوتے ہیں ، نیز خود کو ناکارہ اور حد سے تجاوز کرنے والا خیال کرتے ہیں ، حالانکہ وہ دانا ، قوی ، نیکوکار اور مستقیم الاحوال ہوتے ہیں ، ناواقف انھیں دیکھ کر بیمار سمجھتا ہے ، حالانکہ وہ مریض نہیں ہوتے ،انھیں کوئی مرض لاحق نہیں ہوتا ، البتہ خود ان کے بیمار سمجھنے والوں کو بڑی بڑی بیماریاں گرفتار کئے ہوئے ہیں ۔
علماء و فقہاء کے جن اوصاف واخلاق کا ہم نے سطورِ بالا میں تذکرہ کیا ہے ڈھونڈھنے والوں کو ان سب کی دلیلیں ان احادیث وآثار میں مل جائیں گی ۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ خوف وخشیت اور حیرانی وپریشانی اہل علم کو کیوں لاحق ہوتی ہے ، اس کا جواب یہ ہے کہ انھیں یہ یقین واذعان خوفزدہ کئے رہتا ہے کہ حق تعالیٰ ان سے اس علم کے متعلق عمل کے باب میں سوال کریں گے ، اسی باز پُرس کا استحضار انھیں بے چین کئے رہتا ہے ، اور اسی وجہ سے ہر معاملہ میں احتیاط برتتے ہیں ، اس پر اگر کوئی سوال کرے کہ کیا علماء سے باز پُرس بھی ہوگی ؟ تو ہم کہیں گے بلاشبہ ، پھر وہ کہے کہ اچھا تو کچھ ایسی باتیں تحریر کیجئے جن سے عالم اپنے خواب غفلت سے بیدار ہوجائے ، اور جن اخلاق کا آپ نے ذکر کیا ہے انھیں کوشش سے اختیار کرنے کی ہمت کرے ، واﷲ موفقنا تو ہم کہیں گے لو سنو ! ابھی ان شاء اﷲ
٭٭٭٭٭٭٭