اپنے علم پر حطامِ دنیا ( دنیاوی سامان ) کا طلبگار نہیں ہوتا ۔
عمران منقری کہتے ہیں کہ ایک بار میں نے حضرت حسن بصریؒ سے ان کے کسی قول کے متعلق عرض کیا کہ فقہاء ایسا نہیں کہتے ، فرمایا جاؤ میاں کبھی تم نے کوئی فقیہ دیکھا بھی ہے ؟ فقیہ وہ ہے جو دنیا سے بے رغبت ، آخرت کا حریص ، امور دین میں صاحب بصیرت اور اﷲ عزوجل کی عبادت پر دائم وقائم ہو ۔
وہب بن منبہ کہتے ہیں کہ حضرت عبد اﷲ بن عباس ص کو معلوم ہوا کہ بنی سہم کے علاقے میں ایک مجلس کے اندر قریش کے کچھ افراد بیٹھے کسی مسئلے پر جھگڑ رہے ہیں اور ان کی آوازیں بلند ہوتی جارہی ہیں ، حضرت ابن عباس ص نے فرمایا کہ چلو ذرا وہاں تک چلیں ، جب ہم وہاں پہونچے تو کھڑے کھڑے حضرت ابن عباس ص نے مجھے حکم دیا کہ انھیں اس جوان کی بات سناؤ جس نے حضرت ایوب ں سے گفتگو کی تھی ، میں نے عرض کرنا شروع کیا کہ اس جوان نے کہا تھا کہ اے ایوب ! کیا خدا کی عظمت شان اور موت کی یاد میں ایسی خاص بات نہیں جو تمہاری زبان کی گویائی چھین لے ، تمہارے دل کو پارہ پارہ کردے اور تمہاری دلیل کے ٹکڑے اُڑادے ، اے ایوب ! آپ کو معلوم نہیں کہ اﷲ کے کتنے بندے ایسے ہیں کہ جن کو خدا کی خشیت نے گونگا بنارکھا ہے حالانکہ بولنے سے نہ وہ عاجز ہیں اور نہ فی الواقع وہ گونگے ہیں ۔ وہ لوگ عقلمند ترین ، فصیح وبلیغ ، طلیق اللسان ، سمجھ دار ، اﷲ کی معرفت رکھنے والے اور آیاتِ الٰہی کے عالم ہیں ، لیکن جب عظمت خداوندی کو یاد کرتے ہیں تو ان کے قلوب شق ہوجاتے ہیں ، ان کی زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں ، ان کی عقلیں جواب دے جاتی ہیں ، اور ان کی عادات فنا ہوجاتی ہیں ، اﷲ عزوجل کی ہیبت اور خوف کاان پر یہ اثر ہوتا ہے ، پھر جب