اور نہ بیوقوفوں سے الجھے ، تلاوتِ کلام اﷲ اس نیت سے کرے کہ اﷲ کی مرضی پاسکے ، اور سنت میں اشتغال اس لئے رکھے کہ اﷲ کے حقوق وآداب ضائع نہ ہونے پائیں ، اور عبادتِ الٰہی کے طریقے معلوم ہوتے رہیں ۔ غافلوں کو نصیحت کرے ، جاہلوں کو علم سکھائے ، حکمت کی بخشش ، جو اس کے اہل ہوں ان پر کرے ، اور نااہلوں سے اسے محفوظ رکھے ، ایسے عالم کی مثال طبیب جیسی ہے ، طبیب جانتا ہے کہ دوا کس موقع پر فائدہ کرے گی ۔ جن لوگوں کو اﷲ تعالیٰ نے علمی شہرت عطا فرمائی ہو ، انھیں اس جیسے اخلاقِ فاضلہ اور اوصافِ حمیدہ کا حامل ہوناچاہئے ، جس قدر اس کے علم میں اضافہ ہو اس کی تواضع وخشیت بڑھتی رہے ، سربلندی کا طالب محض خدا سے ہو ، پھر علم کی وجہ سے جو حقوق اس پر عائد ہوتے ہیں ان کے متعلق شدت کے ساتھ خدا سے ڈرتا بھی رہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭