فقہاء کے اقوال سے باہر نہ نکلے ۔ اگر اس کی تحقیق کسی صحابی یا کسی امام کے قول کے موافق ہے تو اسی کو اختیار کرے ، اور اگر اس کی تحقیق اقوال صحابہ اور اقوال الائمہ کے دائرہ سے باہر نکل رہی ہے تو ہرگز اسے اختیار نہ کرے ، اپنی رائے کو ناقص سمجھے ، اور اگر اس سے بڑا کوئی عالم موجو د ہے تو اس سے دریافت کرے تاکہ حق اس پر واضح ہو اور خدا سے بھی دعا کرتا رہے کہ وہی خیر وحق کی توفیق عنایت فرمائیں ۔
اگر سوال ایسا ہے جس کا جواب معلوم نہ ہوتو اپنی لاعلمی کے اظہار میں قطعاً نہ شرمائے اور اگر مسئلہ ایسا ہو کہ اس کے اظہار سے لوگوں میں خوامخواہ ہیجان اور شورو شغب ہوگا تو اس کے بتانے سے معذرت کرے ، اور نرمی ومہربانی کے ساتھ اس سے بہتر کی جانب متوجہ کردے ، اگر کسی مسئلہ میں فتویٰ دینے کے بعد معلوم ہو کہ اس سے غلطی ہوئی تو اس سے رجوع کرلے ، اگر اس نے کوئی بات کہی پھر دوسرے کسی عالم نے اس کی تردید کی ، خواہ تردید کرنے والا اس سے بڑا ہو یا اس کے ہم رتبہ یا اس سے کم درجہ ، ہر صورت میں اگر اس پر واضح ہوجائے کہ حق بات وہی ہے جو دوسرے نے کہی تو بلا تأمل مان لے ، اور اس کا شکر گزار ہو اور اس کا بہتر بدلہ دے ۔
اگر اس سے ایسا کوئی مسئلہ دریافت کیا گیا جس میں قول فیصل کی وہ تعیین نہیں کرپارہا ہے ، تو بے تکلف کہہ دے کہ کسی اور سے معلوم کرلو ۔ جس مسئلہ میں تردد ہو ، اس کے جواب میں خوامخواہ تکلف نہیں کرنا چاہئے ۔ مسائل بدعیہ سے سخت احتراز کرے ، اہل بدعت کی بات ہرگز نہ سنے ، نہ اہل بدعت کی مجالست اختیار کرے اور ان سے بحث ومباحثہ بھی نہ کرے ، اصل علم کتاب وسنت ، طریقۂ صحابہ وتابعین اور اقوال ائمہ ہیں ، اتباع کا حکم دے اور ابتداع سے منع کرے ، علماء سے بحث وجدال نہ کرے