ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2017 |
اكستان |
کے پاس سے گزر رہے تھے تو آپ نے اُنہیں سلام کیا۔ حضرت اُسامہ رضی اللہ عنہ آنحضرت ۖ کے آزاد کردہ غلام تھے، آپ کو اولاد کی طرح محبوب تھے، حضرت اُسامہ رضی اللہ عنہ بہت ذی اِستعداد اور بڑی صلاحیتوں والے تھے اِس لیے چھوٹی عمر میں آپ کو آقائے نامدار ۖ نے مسلمانوں کے ایک لشکر کا سر دار بنایا، آپ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسولِ اکرم ۖ ایک مجلس سے گزرے اُس مجلس میں مسلمان بھی تھے یہودی اور مشرک بھی، تو آپ نے اُس مجلس کو سلام کیا، اِس سے یہ معلوم ہوا کہ جیسے اُمت کوتعلیم دی ہے کہ چلنے والا نہ چلنے والے کو اور تھوڑی تعداد والے بڑی تعداد والوں کو سلام کریں، خودبھی ایسا ہی کرتے تھے۔ اِس روایت سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اگراِس طرح کچھ لوگ ملے جلے بیٹھے ہوں تو اِعتبار مسلمانوں کاہوگا اِس لیے(ان کی نیت کر کے) سلام کرنا ہوگا۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص آقائے نامدار ۖ کی مجلس میں حاضر ہوا اور کہااَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ آپ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا اِس کے لیے دس نیکیاں ہیں۔ اس کے بعدایک اور شخص حاضر ہوا اور کہااَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہْ آپ نے سلام کے جواب کے بعد فرمایا اِس کے لیے بیس نیکیاں ہیں۔ بعد میں ایک اور حاضر ہوا اورکہااَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہ آپ نے اُسے بھی سلام کا جواب دیا اور فرمایا اِس کے لیے تیس نیکیاں ہیں ۔ ١ گویا دُعائیہ کلمات جتنے بڑھ گئے نیکیاں اُسی قدر زیادہ ہو گئیں۔ اللہ تعالیٰ آقائے نامدار ۖ کے ہر حکم پر عمل کرنے کی توفیق بخشے، آمین۔ (بحوالہ ہفت روزہ خدام الدین لاہور ٢١ فروری ١٩٦٩ئ) ------------------------------١ مشکوة شریف کتاب الاداب رقم الحدیث ٤٦٤٤