ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2017 |
اكستان |
|
یعنی جب تم میں کوئی (بھی) اپنے( مسلمان ) بھائی سے ملے تواُسے سلام کرنا چاہیے اگر اِن دونوں کے درمیان درخت دیوار یا پتھر آجائے پھر ایک دُوسرے سے ملے تواُسے (پھر دوبارہ دوسرے بھائی کو) سلام کرنا چاہیے۔ '' سلام'' ایک طرح کی دُعا ہے ایک مسلمان کی دُوسرے مسلمان کے حق میں، دُعا کرنے سے حق تعالیٰ خوش ہوتے ہیں، بکثرت سلام کرنے والا اللہ کا مقبول بن جاتا ہے دُنیا و عقبیٰ میں اُس پراللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں سلام سے محبت بڑھتی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا :لاَ تَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتّٰی تُؤْمِنُوْا تم جنت میں داخل نہیں ہو گے جب تک تمہارا اِیمان کامل نہیں ہوگا۔وَلَا تُؤْمِنُوْا حتّٰی تَحَابُّوْا اور تمہارا اِیمان اُس وقت تک کامل نہیں ہوگا جب تک تم ایک دُوسرے سے محبت نہ رکھو گے ۔اَوَلَا اَدُلُّکُمْ عَلٰی شَیْئٍ اِذَا فَعَلْتُمُوْہُ تَحَابَبْتُمْ کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتلادُوں کہ جس کو کرنے سے تم میں محبت پیدا ہو ۔اَفْشُوا السَّلَامَ بَیْنَکُمْ ١ آپس میں سلام بکثرت کیا کرو ۔ اِس سے تمہارے تعلقات بڑھیں گے اور ایک دُوسرے سے محبت پیدا ہو گی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہارا اِیمان کامل ہو جائے گا اور تم خدا کی خاص رحمت کے مستحق ہو جاؤ گے۔ خود آنحضرت ۖ کثرت سے سلام فرماتے اور عام طور پر سلام میں پہل فرماتے کیونکہ سلام کرنا بہت بڑی نیکی ہے اور نیکی میں سبقت کرنا افضلیت کی بات ہے۔ آنحضرت ۖ نے سلام کاجو طریقہ اُمت کو تعلیم فرمایا ہے خود بھی اُسی طریقہ پر سلام کرتے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ جب سرورِ کائنات علیہ الصلٰوة والتسلیم بچوں کے مجمع ------------------------------١ مشکوة شریف کتاب الاداب رقم الحدیث ٤٦٣١