ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2017 |
اكستان |
|
جو مال بغرضِ تجارت خرید وفروخت میں نہ آئے وہ مستثنیٰ ہے جیسے سامان رکھنے کے برتن دُکان میں استعمال ہونے والا فرنیچر (یا اَوزار،اور مشینری )وغیرہ ۔ سوال : مویشی یعنی بھیڑ بکری کا کاروبار کرنے والا مویشیوں کی قیمت لگا کر اُس قیمت پر زکٰوة ادا کرے گا یا مویشیوں کی تعداد کے مطابق ؟ جواب : جو جانور تجارت کے لیے ہوں اُن کی موجودہ قیمت لگا کر زکٰوة دی جائے گی۔ سوال : سواری کے لیے گھوڑا گاڑی یا موٹر ہوتو اُن پر زکٰوة ہوگی یا نہیں ؟ جواب : نہیں۔ سوال : ایک شخص کے پاس دس ہزار روپے تھے ، اُن پر سال گزر گیا،وہ زکٰوة کا ارادہ ہی کر رہا تھا کہ سارے روپے چوری ہو گئے ، کیا اِس صورت میں اُس پر زکٰوة فرض ہے یا معاف ہو گئی۔ جواب : سارا مال چوری ہوجانے یا سارے کا سارا مال خیرات کرنے سے زکٰوة معاف ہو جاتی ہے سوال : زکٰوة کامال مستحق کو خود دینا ضروری ہے یا کسی اور کے ذریعہ بھی دیا جاسکتا ہے ؟ جواب : خود بھی دے سکتا ہے اور کسی دُوسرے شخص کے ذریعہ بھی۔ سوال : ایک مالدار مسافر کا سارا مال ضائع ہو گیا، گھر میں اگرچہ اُس کا بہت مال موجود ہے لیکن اس وقت اُس کے پاس کچھ نہیں رہا تو کیا اُسے زکٰوة دی جاسکتی ہے ؟ جواب : جی ہاں، ایسے مسافر کو جو حالت ِسفر میں محتاج ہو گیا ہو زکٰوة دی جاسکتی ہے چاہے اُس کے گھر میں اُس کے لاکھوں روپے ہی کیوں نہ ہوں۔ سوال : زکٰوة کی رقم سے مسجد بنانا یا مُردے کا قرض ادا کرنا یا مُردے کا کفن وغیرہ تیار کرنا کیسا ہے ؟ جواب : ان صورتوں میں زکٰوة ادا نہیں ہوگی کیونکہ زکٰوة کی ادائیگی اُس وقت ہوگی کہ جب کوئی محتاج اُسے لے (زکٰوة کی ادائیگی کے لیے شرط ہے کہ جسے زکٰوة دی جائے اُسے زکٰوة کا مالک بنادیا جائے)۔