ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2017 |
اكستان |
|
لیکن اگر تم کو کسی حسین صورت پر عاشق ہونے یا کسی عاشق صادق کے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہو گا تو اِس حالت کو کبھی دشوار نہ سمجھو گے،کیا حسن پرست فریفتہ انسان اپنی معشوقہ کے فکر اور خیال میں ایسے محو مستغرق اور بے خود نہیں ہو جاتے کہ بسااوقات زبان سے کوئی بات کرتے ہیں اور اس کو خود بھی نہیں سمجھتے، پائوں ڈالتے کہیں ہیں اور پڑتا کہیں ہے ،اس کے سامنے سے آدمی گزر جاتا ہے حالانکہ ان کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں مگر وہ ان کو نظر نہیں آتا، دوسرا شخص ان سے بات کرتا ہے مگر یہ سنتے ہی نہیں ، اگر ان سے پوچھا جائے کہ کیوں بھائی کیا دیکھااور کیا سنا تو وہ کچھ بھی جواب نہیں دے سکتے ،پس معلوم ہوا کہ ان کو ایسی محویت ہوگئی کہ اپنی محویت کابھی ان کو علم نہیں رہا کہ دیوانہ بن گئے اور ایسے دیوانہ بنے کہ اپنی دیوانگی کی بھی خبر نہیں رہی مجنون ہو گئے اور جنون کی بھی اطلاع نہیں یہ سب اسی معشوقہ مطلوبہ کے خیال میں مستغرق ہو جانے کا اثر ہے۔، اس کو بھی جانے دیجیے اس سے بھی آسان طریقے سے فنا کی فنائیت سمجھ میں آسکتی ہے دیکھو تم کو اپنی آبرو اور مال سے محبت ہے، پس اگر خدانخواستہ کسی دشمن کی طرف سے تمہارے مال یاآبرو پر حملہ ہو تو اُس کے غصہ اور طیش میں جو کچھ تمہاری حالت ہو گی اُس پر غورکرو کہ وہ کیسی بے خودی کی حالت ہے ظاہر ہے کہ غیض و غضب میں نہ تم کو اپنی خبر رہتی ہے اور نہ دوسرے کی اور تم ایسے بے خود ہوجاتے ہو کہ اُس وقت اپنی بے خودی کا بھی تمہیں احساس نہیں رہتا پھر بھلا اگر کوئی بندہ اپنے مولیٰ کے خیال میں ایسا محو ہوجائے کہ خود فنا سے فنا اور بے خود ہوجائے تو کیا تعجب ہے ؟ سمجھانے کی غرض سے یہ مثالیں ہم نے بیان کی ہیں ورنہ اصل بات تو یہ ہے کہ جس وقت اللہ کے فضل سے اس حالت پر پہنچو گے تو فنائیت اور فنا الفنا کی اصل حقیقت اُسی وقت معلوم کرسکوگے۔ (جاری ہے)