ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2017 |
اكستان |
|
ضرورت مند نہ ہو، نہ اُس منصب کے عہدہ دار (نگرانِ خانقاہ) کو دی جا سکتی ہے کیونکہ اس منصب دار کے لیے جو خود ضرورت مند اور فقیر نہ ہو یہ چیز جائز نہیں ہے، نہ نسبی تعلق رکھنے والے (اُس شیخ یا ولی اللہ کے صاحبزادگان) کواگر وہ ضرورت مند اور فقیر نہ ہوں تو صاحبزادگی کی بنا پر، یاکسی عالم کو جو فقیر اور ضرورت مند نہ ہو صرف عالم ہونے کی بنا پریہ رقم یا منت کی یہ چیز لینی جائز نہیں ہے ۔اور شریعت میں مستغنی لوگوں پرجو ضرورت مند نہ ہوں صَرف کرنے کا جواز ثابت نہیں ہے کیونکہ مخلوق کے لیے منت ماننے کے حرام ہونے پر اجماع ہے، یہ نذر اور منت ہوتی ہی نہیں ہے تو یہ چیز منت ماننے والے ہی کی رہتی ہے اور اس لیے یہ حرام بلکہ سُحت ١ ہے اور شیخ کے خادم کے لیے بھی اِس کا لینا اِس کا کھانا اِس میں کسی قسم کا تصرف کرنا جائز نہیں ہے مگر یہ کہ وہ خادم فقیر اور ضرورت مند ہو اُس کے فقیر اور ضرورت مند عیال (بال بچے) ہوں جو کسب کرنے اور کمانے کے قابل نہ ہوں اور وہ مضطر ہوں تو وہ اِس کو ایک الگ صدقہ کے طور پر لے سکتے ہیں گویا ابتدا سے ان ہی کو یہ چیز صدقہ کے طور پر دی گئی ہے، یہ ضرورت مند مضطر لوگ یہ نذر کی چیز لے سکتے ہیں مگر اِس میں کراہیت پھر بھی رہے گی جبکہ منت ماننے والے نے اِس منت سے تقرب اِلی اللہ کی اور اِس چیز کو فقراء (ضرورت مندوں) پر خرچ کرنے کی نیت نہ کی ہو۔ جب یہ بات جان لی تو یہ بھی سمجھ لیجئے کہ یہ جو منت اور نذر کی چیزیں مثلاً درہم یا موم بتی یا تیل لی جاتی ہیں اور اِن کو اولیاء اللہ کی درگاہوں کی جانب منتقل کیا جاتا ہے تاکہ اِن اولیاء کا تقرب اور اِن کی خوشنودی حاصل ہو تو یہ حرام ہے اِس پر مسلمانوں کا اتفاق ہے، جب تک زندہ فقیروں (ضرورت مند لوگوں ) پرخرچ کرنے کی نیت نہیں ہوتی ،جائز نہیں ہوتی ۔'' ------------------------------ ١ سود