Deobandi Books

حیات دائمی کی راحتیں

ہم نوٹ :

33 - 38
دار معافی مانگو۔ گویا کہ شیشہ پھر چڑھ گیا،  ایئر کنڈیشن پھر چالو ہوگیا۔
اہلِ علم کے لیے صحبتِ اہل اللہ کی ضرورت
اب چوتھی بات سنا کر آج کا بیان ختم  کرتاہوں۔چوں کہ آج ہمارے شیخ مولانا     شاہ ابرارالحق  صاحب تشریف لارہے  ہیں تو میں نے سوچا کہ آپ لوگوں کو حضرت کے کچھ ارشادات  سنادوں ۔ تو چوتھی بات یہ ہے کہ  جب جدہ سے مکہ شریف جاتے ہوئے ہمارے پیر بھائی  انجینئر انوارالحق ایک پیٹرول پمپ پر پیٹرول لینے کے لیے  رکے تو وہاں ایک بہت بڑا آئل ٹینکر بھی آگیاجس کی پیٹھ پر دس ہزار گیلن  پیٹرول لدا تھا۔اب اس نے بھی کہا کہ دو گیلن ہم کو بھی دے دو۔  تو حضرت نے انوارالحق صاحب سے فرمایا کہ یہ  پیٹرول پمپ والے سے دو لیٹر پیٹرول کیوں مانگ رہا ہے؟ اس پر تو خود دس ہزار گیلن پیٹرول لدا ہوا ہے تو انوارالحق صاحب نے کہا کہ حضرت  دس ہزار گیلن   پیٹرول اس کی پیٹھ پر ہے اس کے انجن میں نہیں ہے۔تو حضرت نے فرمایا کہ   علم اگر پیٹھ پر ہو مگر دل میں اللہ کی محبت  نہیں ہو، مدرسوں سے علم کی کمیات تو سیکھ کر آیا ہو مگر اللہ والوں سے  اللہ کی محبت کی کیفیتِ احسانیہ اور کیفیتِ محبت نہیں سیکھی ہو تو  اس کے پیٹھ پر لدا ہوا علم  ایسا ہے کہ نہ خود فائدہ اٹھاسکتا ہے  نہ دوسروں کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔
پھر فرمایا کہ جس طرح پیٹھ پر لدے ہوئے پیٹرول سے  گاڑی نہیں چلے  گی، کسی پیٹرول پمپ میں جانا پڑے گا، اسی طرح اہلِ علم کو بھی چاہیے کہ  اللہ والوں کے پاس جائیں،  ان کے سینے  محبتِ الٰہیہ کے پیٹرول پمپ ہیں  ، اللہ کی خشیت کے  پیٹرول پمپ ہیں،ان سے کہو کہ  ہمارے دل میں بھی اللہ کی کچھ محبت عنایت فرمائیے۔ہماری پیٹھ پر علم تو  ہے،سر پر بڑی سی دستار تو ہے  اور علم کی سند بھی بہت بڑی ہے  لیکن یہ سب پیٹھ  پر لدا ہوا ہے،اب آپ میرے قلب میں اللہ کی محبت  و خشیت کا کچھ پیٹرول بھی عنایت فرمادیجیے۔ 
مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ اہلِ علم کو  اپنے علم پر غرور و ناز نہیں کرنا چاہیے، اللہ والوں کی جوتیاں اٹھانے سے شرمانا نہیں چاہیے،جب مولیٰ  پاجاؤ گے  تب دل سے ان پر فدا ہوجاؤگے  کہ اللہ والوں سے کیا  ملتا ہے۔ میرے شیخ شاہ عبدالغنی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جس طرح امرود والوں سے امرود ملتا ہے، مٹھائی والوں سے مٹھائی ملتی ہے 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 روزِ محشر دوبارہ زندہ ہونے پر ایک اشکال کا جواب 7 1
4 تخلیقِ انسانی کا عجیب و غریب غیبی نظام 8 1
5 روزِ محشر انسانی اجسام کے اجزائے منتشرہ کا جمع ہونا 10 1
6 مدینہ منورہ میں موت پر بشارت 10 1
7 جمعہ کے دن میں موت کی فضیلت 11 1
8 اللہ تعالیٰ کی زمان، مکان اور انسان کو افضلیت دینے کی قدرت 12 1
9 صحبتِ اہل اللہ کے فوائد کی تمثیل 13 1
10 جمعہ کے دن موت کی فضیلت حاصل کرنے کا نسخہ 13 1
11 اللہ تعالیٰ کے فضل کی مثال 14 1
12 جگر مرادآبادی کے تائب ہونے کا قصہ 14 1
13 اُمیدِ رحمتِ الٰہیہ 15 1
14 اللہ تعالیٰ کی شانِ جذب کی ایک مثال 16 1
15 ماں کی محبت اللہ تعالیٰ کی ادنیٰ بھیک کا صدقہ ہے 17 1
16 توبہ کی فضیلت 17 1
17 تقویٰ اختیار کرنے پر ولایت کی بشارت 18 1
18 اللہ وظائف سے نہیں تقویٰ سے ملتا ہے 18 1
19 اجتنابِ معصیت پر عطائے نسبت 18 1
20 حفاظتِ نظر کا حکم انسانی فطرت کے عین مطابق ہے 19 1
21 نعمتِ قربِ الٰہی افضلِ نعمائے عالم ہے 19 1
22 زخمِ حسرت پر حلاوتِ ایمانی کی بشارت 20 1
23 معیتِ الٰہیہ کے درجات 21 1
24 ناپاک عشق کی تمام منازل ناپاک ہیں 21 1
25 زخمِ حسرتِ حسنِ نامعلوم 22 1
26 طلوعِ آفتابِ قربِ الٰہی 22 1
27 اللہ کے قربِ عظیم کا انعام 24 1
28 ایمان کی دو اقسام 24 1
29 بارگاہِ الٰہی میں نااُمیدی نہیں ہے 25 1
30 اللہ تعالیٰ خالقِ رحمتِ مادرِ کائنات ہیں 26 1
31 ولی اللہ بننے کا نسخہ 27 1
32 حفاظتِ نظر کی بہ نسبت نظر بازی میں زیادہ تکلیف ہے 28 1
33 حلاوتِ ایمانی کے اثرات 29 1
34 اعمال کی قدر وقیمت اسی دنیاوی زندگی میں ہے 30 1
35 اہل اللہ کا بے مثل جذبۂ ندامت 30 1
36 ضرورتِ شیخ کی ایک مثال سے وضاحت 31 1
37 تقویٰ میں کمی سے تعلق مع اللہ میں کمی کا تعلق 32 1
38 اہلِ علم کے لیے صحبتِ اہل اللہ کی ضرورت 33 1
Flag Counter