حیات دائمی کی راحتیں |
ہم نوٹ : |
|
اللہ تعالیٰ کے فضل کی مثال ایک بھیک منگا جارہا تھا،راستے میں بادشاہ کا محل آیا،وہاں اس کو پولیس والوں نے پکڑ لیا اور نہلا دھلا کر بادشاہ بنادیا۔ اس نے کہا کہ ہمیں بادشاہ کیوں بنایاہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارا بادشاہ مر گیا ہے اور مجلسِ شوریٰ نے منظوری دی ہے کہ جو سب سے پہلے بادشاہ کے محل کے دروازے پر آئے گا اس کو بادشاہ بنا دیا جائے گا۔ جب شاہی دربار لگا تو وہ فقیر بڑے ٹھاٹھ سے کرسی پر بیٹھ گیا اور دربار میں سارے فیصلے صحیح کیے حالاں کہ سات پشت سے بھیک منگا تھا۔جب اجلاس ختم ہوا تو دو وزیروں کو بلایا کہ میری بغل میں ہاتھ لگاکر مجھے آدابِ شاہی کے ساتھ شاہی محل میں لے چلو،ایک وزیر نے کہا کہ آپ سے ایک سوال کرتا ہوں،آپ تو سات پشت سے فقیر تھے،شاہی محل تو دور کی بات آپ نے تو کبھی تھانے دار کو بھی نہیں دیکھا، پھر آپ کو یہ شاہی آداب کس نے سکھادیے؟اس نے کہا کہ جو خدا بھِک منگے کو سلطنت دے سکتا ہے وہ اسے آدابِِ سلطنت بھی سکھا سکتا ہے۔جو اللہ بڑے بڑے شرابی، زانی، بدکاروں کو ولی اللہ بناکر انہیں آدابِ ولایت سکھاسکتا ہے وہ اللہ سات پشتوں کے فقیر کو آدابِ سلطنت بھی سکھا سکتا ہے۔ جگر مرادآبادی کے تائب ہونے کا قصہ جگر صاحب نے تقریباً پچاس برس شراب پی تھی مگر حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ جیسے اللہ کے ولی کے پاس گئے، ان کے ہاتھ پر توبہ کی اور ان سے دعائیں کروائیں کہ حضرت چار چیزوں کی دعا کردیجیے،نمبر ایک میں شراب چھوڑ دوں،نمبر دو ایک مٹھی داڑھی رکھ لوں،نمبر تین حج کر آؤں،اور نمبر چار میرا خاتمہ ایمان پر ہوجائے۔جگر مرادآبادی آل انڈیا شاعر تھے،شعر بہت غضب کا پڑھتے تھے،آواز بھی غضب کی تھی۔ جگر صاحب تھانہ بھون سے حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر توبہ کرکے واپس آئے اور شراب چھوڑ دی۔ یو پی کے ڈاکٹروں کے بورڈ نے کہا کہ اگر تھوڑی بہت نہ پیوگے تو بیمار ہوجاؤگے اور مر جاؤ گے۔جگر صاحب نے ڈاکٹروں کے بورڈ سے کہا کہ اگر میں