حیات دائمی کی راحتیں |
ہم نوٹ : |
|
اور کیا چھوڑ کر پاتا ہے؟ گراؤنڈ فلور کے نجس اور گندے مقامات کو۔ کیوں کہ ہر گناہ کا آخری مرکز وہی ہے۔ اس پر میرا شعر سن لیجیے ؎ عشقِ بتاں کی منزلیں ختم ہیں سب گناہ پر جس کی ہو ابتدا غلط کیسے صحیح ہو انتہا اگر کسی کو کسی حسین پر پورا قابو مل جائے تو اولیائے صدیقین تو مستثنیٰ ہیں ، وہ تو گناہ میں ملوث نہیں ہوں گے لیکن عام امتی کاخطرہ ہے کہ وہ گناہ میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ زخمِ حسرتِ حسنِ نامعلوم لہٰذا دوستو! اللہ تعالیٰ نے نظر کو حرام فرماکر ہمیں گناہ سے اور گندے مقامات کی آخری منزل سے بچالیا کہ تھوڑا سا زخم حسرتِ حسنِ نامعلوم لے لو،کیوں کہ نظر بچاؤگے تو حسن کا نوک پلک نظر نہیں آئے گا،جیسے ریل میں سفر کرتے وقت آپ کو درخت گزرتےنظر آئیں گے مگر آپ درخت کے پتے نہیں گِن سکتے۔تو حسینوں کو گزرنے دو، نظر بچالو تاکہ حسن کا نوک پلک اور اس کے نکتے آپ کے دائرۂ نظر میں داخل نہ ہوسکیں۔ طلوعِ آفتابِ قربِ الٰہی اللہ تعالیٰ زخم حسرتِ حسنِ نامعلوم دے کر تمہیں شدت ِ غم حسنِ معلوم سے بچارہے ہیں یعنی سانپ سے بچارہے ہیں، بس تھوڑا سا مچھر کے کاٹنے کو برداشت کرلو۔ اور اس کے بعد آپ کو کیا ملے گا؟ خونِ آرزو سے کیا ملے گا؟ اللہ تعالیٰ کے قرب کا سورج ملے گا۔ اللہ تعالیٰ کائنات کو ایک سورج دیتا ہے تو مشرق لال ہوجاتا مگر اپنے عاشقوں کوجو ہر وقت خونِ آرزو اور خونِ تمنا کرکے اپنے مالک کو ایک لمحہ بھی ناراض نہیں کرتے، اس ایثار و وفاداری کے صدقے میں اللہ تعالیٰ ان کے دل کے چاروں اُفق پر بے شمار آفتاب دیتا ہے۔ انسان کے قلب میں مشرق بھی ہے،مغرب بھی ہے،شمال بھی ہے اور جنوب بھی ہے۔اگر بندہ ہر طرف سے اللہ کا وفادار اور نمک حلال ہے، اپنے دل کے خونِ آرزو سے اپنے _____________________________________________ 7؎البقرۃ: 153