حیات دائمی کی راحتیں |
ہم نوٹ : |
|
محسوس ہوئیں تو انہوں نے یہ شعر پڑھا ؎ یہ کون آیا کہ دھیمی پڑگئی لو شمع محفل کی پتنگوں کے عوض اُڑنے لگیں چنگاریاں دل کی یہ کون آیا کہ ساری کائنات میں اور سورج چاند میں لوڈشیڈنگ محسوس ہو رہی ہے، سلاطین کے تخت و تاج نیلام ہورہے ہیں، لیلائے کائنات کے نمکیات نگاہوں سے گرے ہوئے نظر آرہے ہیں، ان کے گراؤنڈ فلور کے گندے مقامات کی بدبودار اور مردار راہیں نگاہوں سے گررہی ہیں، پاپڑ بریانی اور دنیا کی جتنی بھی نعمتیں ہیں سب اس منعمِ حقیقی کی تجلیات کے ظہور کے بعد نگاہوں سے گِری جارہی ہیں۔آہ! میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحبت رحمۃ اللہ علیہ اکثر یہ شعر پڑھ کر مست ہوجاتے تھے اور آنسو بہاتے تھے اور ایک شعر اور پڑھتے تھے ؎ بس ایک بجلی سے پہلے کوندی پھر اس کے آگے خبر نہیں ہے مگر پہلو کو جو دیکھتا ہوں تو دل نہیں ہے جگر نہیں ہے اور میرا شعر ہے ، گو کہ یہ شعر اختر کا ہے، مگر میرے بزرگوں کی جوتیوں کا صدقہ ہے، اس میں اختر کا کوئی کمال نہیں ؎ انا کہ میؔر گلشنِ جنت تو دور ہے عارف ہے دل میں خالقِ جنت لیے ہوئے جو اپنے دل میں خالقِِ جنت لیے ہوئےہو اس کی مستی کا کیا عالم ہوگا؟ اور اللہ کو پانے کے لیے کیا چیز چھوڑنی پڑتی ہے؟ گناہ۔ میں آپ لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ بتاؤ! جتنے گناہ ہیں وہ خراب چیز ہیں یا اچھی چیز ہیں؟ اگر ہمارا مولیٰ ہمارا خراب مال لے کر اپنی ذات عطا فرمادے تو ہمارا خوں بہا کتنا قیمتی ہوگا۔ہمارے اس خونِ آرزو کی قیمت اللہ نے کتنی زیادہ رکھی ہے۔ زخمِ حسرت پر حلاوتِ ایمانی کی بشارت اللہ نے ہمیں خراب آرزوؤں کا خون کرنے کا حکم دیا ہے کہ کسی کی بہن، بیٹے یا بیٹی کو مت دیکھو، خراب آرزو کو پورا مت کرو،اپنی حرام خوشیوں کا خون کرلو کیوں کہ یہ خوشی تم کو