حیات دائمی کی راحتیں |
ہم نوٹ : |
|
تو سمجھ لینا کہ جلال الدین اللہ کی عظمتوں کے سامنے،قیامت کے خوف سے، اپنی نالائقیوں پر ندامت کی وجہ سے خون کے آنسو رویا ہوگا۔اس کا نام جذبۂ گرفتن ہے یعنی اللہ والوں کو اتنا جذبۂ ندامت ہوتا ہے کہ اگر وہ سارے عالم میں خون کے دریا کے دریا رو لیں تو بھی اللہ کی عظمت کے سامنے اپنے گناہوں پر ندامت کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ اسی جذبے کے طور پر مولانا رومی نے یہ شعر کہا تھا۔ اور مولانا رومی اللہ تعالیٰ سے عرض کررہے ہیں ؎ اے دریغا اشکِ من دریا بدے تا نثارِ دلبرے زیبا شدے اے خدا! چند آنسو رونے سے ہماری تسلی نہیں ہوتی،لہٰذا ہمارے آنسوؤں کو دریا بنا دے تاکہ جلال الدین رومی دریا کے دریا آنسو آپ پر فدا کردے۔ اللہ والوں کے یہ جذبات ہوتے ہیں۔ اللہ والوں کے قلب میں کیا کیا جذبات ہوتے ہیں اور ان کے قلب کے عالم میں کیا کیا عالم ہوتا ہے،دوسرا اس کو کیا جانے۔ درد والے کے درد کو بے درد کیا جانے کہ درد کیا چیز ہوتی ہے۔ اب جلدی سے دو تین باتیں پیش کرتا ہوں: پہلی بات یہ کہ میرے مرشد ِ ثانی شاہ ابرارالحق صاحب دامت برکاتہم جب شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے ابو داؤد شریف پڑھ رہے تھے تو شیخ الحدیث نے ان کے بارے میں فرمایا کہ مولانا ابرارالحق صاحب جب مجھ سے ابو داؤد شریف پڑھ رہے تھے تو اسی وقت سے یہ صاحبِ نسبت یعنی ولی اللہ ہیں۔ ضرورتِ شیخ کی ایک مثال سے وضاحت دوسری بات یہ کہ میرے مرشد ِ ثانی شاہ ابرارالحق صاحب مجھ کو ہردوئی شہر میں ایک مریض کی عیادت کے لیے لے گئے،اس کے گھر کے سامنے دو گھر تھے، ایک گھر کے سامنے گدھے کی لید ، گھوڑے کی لید،کانٹے اور گندگی پڑی ہوئی تھی اور دوسرے گھر کے سامنے ایک مالی بیٹھا ہوا تھااور گلاب، چنبیلی اور بیلا کے خوشنما پھول اور گھاس سلیقے سے لگی ہوئی تھی۔تو میرے مرشد نے فرمایا کہ دیکھو جہاں مالی ہے اس گھر کے صحن اور دروازے کے