قلوب اولیاء اور نور خدا |
ہم نوٹ : |
|
حکم بھی دے دیا کہ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ ہوجاؤ اور اپنے علم الیقین کے مقام کو عین الیقین تک پہنچادو یعنی اللہ والوں کے پاس جاؤ اور ان کو دیکھو کہ ہمارا نام لینے کی برکت سے کیسے چین سے ہیں بلکہ تم بھی ان کے پاس بیٹھ کر چین پا جاتے ہو،ہمارا نام لینے والا تو چین پاتاہےمگراس کے پاس جو بیٹھ جاتا ہے اس کو بھی چین ملتا ہے، یہ ہے کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ ،اللہ والوں کے پاس جاکر بیٹھو تو سہی، ان شاء اللہ تعالیٰ لومڑی بھی شیر ہوجائے گی، گناہوں سے بچنے کی ہمت بھی پاجاؤ گے مگر ارادۂ حق کے ساتھ جاؤ، یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ 14؎ کے ساتھ جاؤ، اللہ کا ارادہ کرکے جاؤ کہ ہم اللہ والے کے پاس اس لیے جارہے ہیں کہ ہمیں بھی اللہ مل جائے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ صحابہ کو جتنا فیض ہوا اس کا سبب یہی تھا کہ انہوں نے میری ذات کو اپنی مراد بنایا تھا، اس لیے میرے نبی کے فیض سے مالا مال ہوکر صحابہ کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ جب میرے بندے میرے مقبول اور اولیاء کی صحبت میں جائیں گے تو ان کا علم الیقین عین الیقین سے تبدیل ہوجائے گا کیوں کہ جب آدمی اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے تو پھر ضرور اس کو حاصل کرتا ہے، للچا جاتا ہے کہ آہ! یہ اﷲ والے کتنے چین سے ہیں۔ تو علم الیقین اور عین الیقین کے بعد حق الیقین کا درجہ خود بخود مل جاتا ہے ۔ سکونِ دل کی تباہی کا سبب بد نظری کو شریعت نے اس لیے حرام کردیا کہ کہیں شیطان تم کو بہکا نہ دے کہ کیسی پیاری شکل ہے، اسے فوراً دیکھ لو، پتا نہیں مولیٰ ملے نہ ملے لیکن لیلیٰ تو نقد ہے، حالاں کہ یہ بات نہیں ہے، جس نے مولیٰ کا راستہ چھوڑا اس کے قلب پر عذاب نازل ہوتا ہے۔ جس وقت گناہ کا زیرو پوائنٹ یعنی نقطۂ آغاز ہوتا ہے، جس وقت بندہ اپنی حیات کو نافرمانی میں مشغول کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو تو معلوم ہوتا ہے کہ آج یہ کسی حسین کی تلاش میں جارہا ہے چناں چہ اِدھر اس کا گناہ کرنے کا ارادہ ہوا اُدھر دل میں بربادی و تباہی اور مَعِیۡشَۃً ضَنۡکًا کا ظہور ہوا۔ اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیں: _____________________________________________ 14؎الکہف:28