قلوب اولیاء اور نور خدا |
ہم نوٹ : |
|
میں وہ خود ہی اللہ اللہ کرنے لگے گا اور اللہ کی محبت کی تیز مے کی خوشبو سے محروم نہیں رہے گا۔ ظاہر و باطن کو تابع آدابِ بندگی کرنا مقصود ہے بہت سےلوگ کہتے ہیں کہ مولانا! داڑھی دل میں ہونی چاہیے، گالوں پر کیا ضرورت ہے؟ اس کے کئی جوابات ہیں۔ اگر کوئی کہے کہ عورتوں کی داڑھی گال پر ہونی چاہیے اور ان کا دل گال کی طرح چکنا ہونا چاہیے تو آپ اس کو برداشت کریں گے؟ کیوں کہ عورت کا گال جو بے بال ہےاس کا یہی خد و خال باعثِ جمال ہے۔ اگر کوئی کہے کہ عورتوں کے داڑھی لگا دو، چاہے مصنوعی ہو بس ان کے دل میں جمال رہے تو آپ اس کو برداشت کریں گے؟ اسی طرح جب آپ سیب خریدتے ہیں تو اس کے اندرونی جمال کو نہیں دیکھتے، اگر سیب کا چھلکا سڑا ہوا ہے تو اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ سیب ہم کو پسند نہیں ہے کیوں کہ اس کا ظاہر صاف نہیں ہے۔ اور جب شادی کرتے ہیں تو اگر وہ کالی ہو یا چپٹی ناک کی ہو، موٹے موٹے ہونٹ ہوں اور بڑے بڑے دانت نکلے ہوں اور ساری دنیا کے ماہرین حسن بھی یہ کہیں کہ اس کے ظاہر پر مت جاؤ اس کے دل میں بہت حسن ہے، تو آپ کہیں گے ہم کو ظاہر بھی حسین چاہیے اور باطن بھی حسین چاہیے۔اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندوں کے ظاہر کو بھی حسین دیکھنا چاہتے ہیں اور باطن کو بھی حسین دیکھنا چاہتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کو یہ حق بھی ہے، وہ اپنے غلاموں کو اور اپنے بندوں کی صورت کو داڑھی والا دیکھنا چاہتے ہیں اور ان کے باطن میں بھی اپنی بندگی کے آداب دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس پر میں یہ کہتا ہوں کہ جو رکھتا ہے داڑھی، اللہ سے اس کی دوستی ہوتی ہے گاڑھی۔ ابھی حال ہی میں اللہ تعالیٰ نے ایک خاص مثال عطا فرمائی ہے کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ داڑھی دل میں ہونی چاہیے، باہر ہونا ضروری نہیں ہے، اگر ایئر پورٹ پر آپ کا جہاز اُتر رہا ہے اور پائلٹ کہتا ہے کہ ہوائی جہاز کا پہیہ جو جہاز کے اندر ہے وہ باہر نہیں آرہا، تو سب لوگ رونے لگیں گے یا نہیں؟ یا یہ کہیں گے کہ جیسے داڑھی ہمارے دل میں ہے تو کوئی حرج نہیں پہیہ بھی اندر رہنے دیں، وہاں تو چیخنے لگو گے، رونے لگو گے کہ اللہ ! رحم فرمائیے، پہیہ باہر آنا چاہیے۔