قلوب اولیاء اور نور خدا |
ہم نوٹ : |
|
قلوبِ اولیاء اور نورِ خدا اَلْحَمْدُ لِلہِ وَکَفٰی وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی اَمَّا بَعْدُ اللہ تعالیٰ کی شانِ ربوبیت اس بات کو خوب اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ مدارس سے اور کتب بینی سے کمیاتِ علومِ شرعیہ ملتے ہیں اور اہل اللہ کے سینوں سے کیفیاتِ احسانیہ ملتی ہیں کہ کس درد ِدل سے سجدہ کیا جائے اور کس دردِ دل سے رکوع ہو۔ اصل میں روح سجدہ کرتی ہے، عام لوگ تو سجدہ میں سر رکھتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ سجدہ میرے سر کا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کے عاشقین اور عارفین کو مشاہدہ ہوتا ہے کہ میری روح ساجد ہے کیوں کہ اگر روح نہ ہوتی تو کیا آپ سجدہ کرسکتے تھے؟ اعتقادی طور پر یہ سمجھنا اور بات ہے کہ روح کی برکت سے سجدہ ہورہا ہے مگر اہل اﷲ کو اپنی روح حالتِ سجدہ میں نظر آتی ہے، رکوع میں ان کو اپنی روح عظمتِ الٰہیہ کے سامنے جھکی ہوئی نظر آتی ہے، جب وہ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ کہتے ہیں تو جانتے ہیں کہ اے عالیشان پالنے والے! آپ کی ادائے تربیت تمام عیوب سے پاک ہے، جس کو جس وقت جیسے پالاوہی اس کے لیے بہتر ہے، کبھی غریب رکھا،کبھی امیر بنایا، اور جوانی میں اکثر مشایخ کو غریب رکھا جاتا ہے تاکہ ان کی جوانی مال و دولت کے نشے میں غلط استعمال نہ ہو جائے۔ شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب میں جوان تھا تو مجھے چنے نہیں ملے، اب بڈھا ہوگیا ہوں تو بورے کے بورے چنے چاروں طرف رکھے ہیں، کیوں کہ چنے بھی جانتے ہیں کہ بڑے میاں کے دانت نہیں ہیں اب ہم کو کیا کھائیں گے۔اور اگر جوانی میں زیادہ عیش و آرام مل جائے تو اکثر لوگوں کا عشق اور پیٹرول غلط جگہ استعمال ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سجدہ میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی کہلا رہے ہیں کہ ہم نے تم کو جس طرح پالا، جس عمر میں جیسے پالا اور جن وسائل سے پالا اور تربیت کے جو اسباب دیے وہ اس وقت تمہارے