قلوب اولیاء اور نور خدا |
ہم نوٹ : |
|
آر نہیں دیکھتےتو یہ پیدا کس لیے ہوئے ہیں؟ظالمو! ہم مولیٰ کے لیے پیدا ہوئے ہیں، ہمیں اللہ نے اپنی عبادت کے لیے پیداکیا ہے، وَمَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ 17؎ اللہ نے ہمیں وی سی آر، سینما اور مرنے والوں کا نمک چکھنے کے لیے یعنی جس نمک کو خدا نے حرام فرمایا اس کی نمک حرامی کے لیے پیدا نہیں کیا، ہم نمک حلالی پر فدا ہیں، ہم اللہ کا نمک کھائیں گے اور اللہ کی مرضی پر جینا اور مرنا قبول کریں گے۔ منافقین کا صحابہ کو طعنہ منافقین نے صحابہ کے لیے بھی یہی کہا تھا اَنُؤۡمِنُ کَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَہَآءُ 18؎ کیا ہم ایمان لائیں جیسے یہ بے وقوف لوگ ایمان لائے ہیں؟ تو معلوم ہوا کہ آج کل کے دنیا داروں کا اﷲ والوں کو یہ طعنہ دینا کوئی نیا ایڈیشن نہیں ہے، یہ ان کی کتاب کا نیا ایڈیشن نہیں ہے، عہدِ رسالت میں سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی منافقین یہی کہتے تھے کہ کیا ہم صحابہ جیسی بے وقوفی کرلیں؟ اَنُؤۡمِنُ کیا ہم ایمان لائیں کَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَہَآءُ ، سُفَہَآءُ جمع ہے سَفِیْہٌ کی، اور سَفِیْہٌ سَفَاہَۃٌ سے بناہے، وَ الْمُرَادُ بِالسَّفَاہَۃِ خِفَّۃُ الْعَقْلِ وَالْجَھْلُ بِالْاُمُوْرِ ، یہ تفسیر روح المعانی کی عبارت پیش کررہا ہوں کہ سَفَاہَۃٌ کے معنی ہیں خِفَّۃُ الْعَقْلِ ،عقل کا ہلکا ہونا وَ الْجَھْلُ بِالْاُمُوْرِ اور حقائق امور سے جاہل ہونا۔ 19؎منافقین کے طعنہ پر اللہ تعالیٰ کا جواب تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا اَلَاۤ اِنَّہُمۡ ہُمُ السُّفَہَآءُ اے دنیا والو! خوب غور سے سن لو! اصلی بے وقوف یہی ہیں جو ہمارے متقی اور پیاروں کو برا کہتے ہیں، جو اپنے دل میں مولیٰ لیے ہوئے ہیں، قلب میں میرا نور لیے ہوئے ہیں، یَمۡشِیۡ بِہٖ فِی النَّاسِ سارے عالم میں جہاں جاتے ہیں میرا نور ان کے قلب میں موجود ہوتا ہے، کبھی ان سے جدا نہیں ہوتا، وہ کبھی ہم _____________________________________________ 17؎الذٰریٰت:56 18؎البقرۃ:13 19؎روح المعانی:156/1، البقرۃ (13)، بیروت