قلوب اولیاء اور نور خدا |
ہم نوٹ : |
|
وَ مَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِکۡرِیۡ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیۡشَۃً ضَنۡکًا 15؎جو اﷲ کی ناراضگی والا راستہ اختیار کرے گا اس کی زندگی تلخ کردی جائے گی۔ جبکہ اللہ کے راستے کا غم یعنی نظر بچانے کا جو غم ہے اور لیلاؤں سے اپنی جان بچانے کا جو غم ہے اس میں لذتِ قربِ مولیٰ بھی شامل ہے کیوں کہ جس کے لیے آدمی کام کرتا ہے، اس کی عنایت اس کے ساتھ رہتی ہے۔ جو بندہ اﷲ کی خاطرغم اٹھاتا ہے اس پر مجھے اپنا ایک شعر یاد آتا ہے۔ عام دنیا دار لوگ سمجھتے ہیں کہ مولوی لوگ بڑی حسرت میں ہیں، انہیں تو کوئی مزہ ہی حاصل نہیں، یہ تو دنیا میں بے کار پیدا ہوئے، مولوی لوگ دنیا کی رنگینیوں سے کنارہ کش ہیں، بڑے گھاٹے میں اور ٹوٹے میں اور خسارے میں ہیں، اس پر میرا شعر سنیے ؎ غارتِ گر حیات سمجھتی تھی کائنات میری نظر میں غم تیرا جانِ حیات ہے گناہوں میں ملوث رکھنے کے لیے شیطان کا ایک حربہ اللہ تعالیٰ کی محبت کو، گناہوں سے بچنے کے غم تقویٰ کو لوگ سمجھتے ہیں کہ ان پر تو ملّائیت سوار ہے، یہ بالکل ہی تباہ و برباد قوم ہے، ہر مزے سے اپنے کو بچائے ہوئے ہے، ہروقت اللہ کی یاد میں لگے ہوئے ہیں لیکن یہ ظالم و بدھو اور بے وقوف انسان ہیں جیسے ایک جاہل بکری چرانے والا اکبر بادشاہ کا مہمان ہوا۔ ایک مرتبہ اکبر بادشاہ شکار کے دوران اپنے درباریوں اور سپاہیوں سے بچھڑ گیا، ایک دیہاتی نے اس کی مہمان نوازی کی، رخصت ہوتے وقت بادشاہ نے اسے اپنے محل آنے کی دعوت دی۔ کچھ عرصے بعد وہ بادشاہ کے محل میں پہنچ گیا اور کہا کہ میں نے جنگل میں آپ کو دودھ پلایا تھا اور آپ نے اپنی مہمان نوازی کا وعدہ کیا تھا اور یہ آپ کا دستخطی کارڈ میرے پاس ہے تو اکبر بادشاہ نے اس کے لیے فوراً فیرنی پکوائی، باسمتی چاول پسوائے، خالص دودھ میں پکایا اور کھویا وغیرہ ڈال کر چاندی کا ورق لگایا، چاول سفید، دودھ سفید، دو سفید جمع ہوگئے اور چاندی _____________________________________________ 15؎طٰہٰ:124