قلوب اولیاء اور نور خدا |
ہم نوٹ : |
|
آج ہے کل مرجائے گی تب کہاں جاؤ گے؟ جب میں اعظم گڑھ پھولپور میں تھا تو میرے دوا خانے کے سامنے سے ایک ہندو گزر تا تھا، وہ لکڑی کی کھڑاؤں بجاکر اپنی غزل کی ایک دُھن بناتا تھا اور یہ مصرع پڑھتا تھا ؎ ہم جانتے تو تجھ کو کبھی پیار نہ کرتے میں نے کچھ ہندوؤں کو اس کے پیچھے لگایا کہ پوچھو اس کو کیا مصیبت آئی ہے کہ یہ پاگل ہوگیا ہے۔ تو مجھے اس کے دوستوں نے بتایا کہ اس کی بیوی بہت خوبصورت تھی اور یہ اس پر عاشق تھا، وہ اچانک کسی بیماری میں مرگئی، اس حادثے نے اس کا دماغ خراب کردیا، اب وہ پچھتا رہا ہے کہ اگر ہم جانتے کہ تو مرجائے گی تو تجھ سے کبھی محبت ہی نہ کرتے، تجھ سے کبھی پیار ہی نہ کرتے۔ دیکھا آپ نے دنیا کے پیاروں اور پیاریوں کو! بس صرف اللہ تعالیٰ سے دل لگاؤ اور اللہ کی مرضی کے مطابق اپنی بیوی سے محبت کرو، بچوں سے محبت کرو، رزقِ حلال اور کاروبار سے محبت کرو، جس سے اللہ راضی ہو اس کام کو کرو اور جس سے اللہ ناخوش ہو ایسی کروڑہا خوشیوں پر لعنت بھیجو۔ مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے ؎ خوشی کو آگ لگادی خوشی خوشی ہم نے خزانۂ محبتِ الٰہیہ کا مخزن اللہ کے جن وفادار بندوں نے اپنی بری خواہشات کا خون کردیا اور حرام دنیاوی بہاروں سے دل کو ویران کردیا تو اللہ تعالیٰ اس کے قلب کو آباد کرتے ہیں۔ اور اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ خزانہ ہمیشہ جنگلوں میں دفن ہوتا ہے، شہر کے اندر دفن نہیں ہوتا، کل کو کوئی زمین خرید لے اور کھدائی کرے اور خزانہ نکل آئے تو جس نے خزانہ زمین میں دبایا تھا اس کا خزانہ تو غائب ہوگیا لہٰذا ویرانے میں خزانہ دفن ہوتا ہے جہاں کوئی انسان مکان نہ بنائے، کھدائی نہ کرے۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی محبت کا خزانہ، اپنی نسبت کا خزانہ، اپنی دوستی کا خزانہ ان ہی دلوں کو دیتے ہیں جو اپنی بری خواہشات کو مار کر اپنے دل کو ویران کرتے ہیں، فرماتے ہیں ؎ گنج در ویرانی است اے میر من