داستان اہل دل |
ہم نوٹ : |
|
حضرت والا کا ادبِ اساتذہ اور اُس کے ثمرات اور میری مثنوی کی شرح اور دوسری کتابیں پڑھ کر مجھے فارسی پڑھانے والے استاد بھی کہنے لگے کہ کیا تم نے کہیں اور فارسی پڑھی ہے کیوں کہ مثنوی کی شرح آسان نہیں ہے تو میں نے عرض کیا کہ حضرت! جو آپ سے پڑھا تھا اتنا ہی پڑھا ہے اور چوں کہ وہ تیز بولتے تھے تو سمجھ میں آتا نہیں تھا اور طلبہ شکایت کرتے تھے، میں نے کہا کہ شکایت مت کرو، استاد کا ادب کرو، جو ملنا ہے اسی میں مل جائے گا کیوں کہ استاد الحمد ﷲ! تہجد گزار اور حکیم الامت تھانوی سے بیعت تھے۔ تو ایک صاحبِ نسبت کی شکایت نہ کرو کہ یہ تیز بولتے ہیں، اس لیے میں نے کہا کہ جیسے بولیں بولنے دو بعد میں آپس میں تکرار کرکے سمجھ لو، حاشیہ دیکھ لو۔ اﷲ کا شکر ہے کہ میری فارسی میں اﷲ نے وہ برکت ڈالی کہ ایران کے علامہ زاہد نیشاپوری جن کی مادری زبان فارسی ہے انہوں نے مجھے لکھا کہ’’ہر کہ مثنوی اختر را بخواند اورا مثنوی مولانا روم پندارد‘‘ یعنی جو اختر کی مثنوی پڑھتا ہے وہ اسے مولانا روم کی مثنوی سمجھتاہے، او رسنیے ’’وترا مولانا جلال الدین رومی ثانوی می فہمیدم‘‘ ہم آپ کو اس زمانے کا مولانا رومی ثانی سمجھتے ہیں۔ میری مثنوی کے شروع میں یہ چھپاہوا ہے۔ علامہ زاہد نیشاپوری ایرانی مادر زاد فارسی اہلِ زبان اور فاضل دیوبند تھے۔ بس امید ہے کہ میری آہ ان شاء اﷲ رائیگاں نہیں ہوگی۔ مولانا ہارون بتاؤ! جب شروع شروع میں مولوی حسین میرے پاس آتے تھے تو لوگ ہنستے تھے یا نہیں؟ کہ یہاں کیا رکھا ہے، اس کے پاس کہا ں جاتے ہو، اب وہی لوگ، بنوری ٹاؤن کے مفتی حضرات اور بینات کے مدیر سب بیعت ہوگئے۔ اﷲ تعالیٰ اور بھی دکھائے گا، ابھی میں اور امید رکھتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ میری آہ کو رائیگاں نہیں فرمائے گا ؎ آہ جائے گی نہ میری رائیگاں تجھ سے ہے فریاد اے ربِّ جہاں یہ شعر مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کا ہے، اور میرا شعر ہے ؎