داستان اہل دل |
ہم نوٹ : |
|
کہ اپنی بے اصولی سے اس کو فرار نہ اختیار کرنا پڑے لیکن اگر کوئی اپنے تکبر یا اپنی خباثتِ طبع یا اکڑفوں سے شیخ کو نظر انداز کرکے بھاگ جائے تو سمجھ لو کہ اس کو دوسرے عاشقین اور بہت باوفا مرید ملنے والے ہیں، اس کی دلیل ہے: مَنۡ یَّرۡتَدَّ مِنۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللہُ بِقَوۡمٍ 17؎اگر کوئی دین سے مرتد ہوجائے تو اﷲ اس کے بدلے عاشقوں کی ایک قوم لائے گا۔ میرا تجربہ ہے کہ ایک دو مرید بھاگے تو اﷲ نے دس بھیج دیے اور نہایت عاشق باوفا، جان ومال سے فدا۔ تو چند لوگ مرتد ہوگئے تو اﷲ تعالیٰ نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو ایک قوم عطا فرمائی، لہٰذا یہ ساری سنتیں اولیاء اﷲ و مشایخ کو بھی ملتی ہیں۔ بعض لوگ دل سے ساتھ نہیں رہیں گے، وہ ٹوہ لگاتے ہیں کہ یہاں کیا کیا کیڑے ہیں اور اگر کیڑے نہیں نکالتے تو بقول قرار صاحب کیڑے ڈال دیتے ہیں۔ حکیم الامت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ سے دور دور سے لوگوں نے فیض اٹھایا، جونپور سے ڈاکٹر عبد الحی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ، اعظم گڑھ سے دوخلیفہ شاہ وصی اﷲ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ اور شاہ عبدالغنی رحمۃ اﷲ علیہ، ہردوئی سے حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم غرض ہرطرف سے فیض لینے والے ہوئے مگر تھانہ بھون میں چراغ تلے اندھیرا تھا، سب حضرت کی غیبت کرتے تھے کہ اس بڈھے میں کیا رکھا ہے جو کلکتہ، اعظم گڑھ اور نجانے کہاں کہاں سے لوگ آرہے ہیں، ان میں ایسی کیا خاص بات ہے۔ اعمال کا وجود قبولیت پر موقوف ہے لہٰذا جب اچھے باوفا دوست مل جائیں تو شکر ادا کرے، کسی عمل پر فخر نہ کرے کیوں کہ عمل کا وجود قبولیت پر ہے، اگر عمل مقبول ہے تب تو موجود ہے اگر مقبول نہیں ہے تو غیر موجود ہے۔ اس کی دلیل حدیث میں ہے: طُوْبٰی لِمَنْ وَّجَدَ فِیْ صَحِیْفَتِہِ اسْتِغْفَارًا کَثِیْرًا 18؎ _____________________________________________ 17؎المآئدۃ:54 18؎سنن ابن ماجۃ:406(3818)،کتاب الادب، باب الاستغفار،المکتبۃ الرحمانیۃ