داستان اہل دل |
ہم نوٹ : |
|
ہر طرف پانی ہی پانی ہوتا تھا اور کوئی غسل خانہ بھی نہیں تھا، جب غسل کی ضرورت پڑجاتی تو تالاب میں یخ پانی میں گھسنا پڑتا تھا جس میں چاروں طرف جونکیں بھی ہوتی تھیں، جونک کو ہٹاتے رہو اور نہاتے رہو۔ آج سوچتا ہوں تو کہتا ہوں کہ یااﷲ! آپ کے کرم نے وہ وقت گزروادیا، اب تو تصور سے بھی دل کانپتا ہے کہ میں نے وہ دن کیسے گزارے ۔ یہ ہے اس شعر کا حاصل کہ میرے سامنے میرے بزرگوں کی حیاتِ عاشقاں، حیاتِ دوستاں او رداستانِ حیات ہے، وہی داستان پیش کرتا ہوں۔مجھے ستایا بھی بہت گیا اور مجھ پر تبصرہ بھی ہوا ،میں ایسے وقت میں ایک شعر پڑھتا ہوں ؎ مرے حال پر تبصرہ کرنے والو! تمہیں بھی اگر عشق یہ دن دکھائے جب میں شاہ عبد الغنی رحمۃ اﷲ علیہ کی خدمت میں گیا تو وہ تمام لوگ جنہوں نے مجھ کو طب پڑھائی تھی، سب سے پہلے انہوں نے تنقید کی کہ حکیم ہو کر پیری مریدی میں پڑ گئے، دواخانہ کھولنا چاہیے، طب کو ترقی دینی چاہیے، یہ کس چکر میں پھنس گئے؟ اور عربی پڑھانے والے اساتذہ کہتے تھے کہ اس کو کیا علم آئے گا، کوئی پوچھے گا بھی نہیں کیوں کہ یہ تو پیری مریدی کے چکر میں ہے، جب دیکھو اپنے شیخ کے یہاں، ہر جمعرات کی شام کو بستر سر پر رکھا اور شیخ کی خدمت میں پہنچ گئے، کیوں کہ وہ دیہات تھا اور سردیوں میں میرے شیخ کے یہاں بستر نہیں ملتا تھا۔ تو بستر لے کر، گدّا رضائی سر پر لادا اور پانچ میل پیدل شیخ کے یہاں جمعرات کو گئے، شبِ جمعہ رہے،دن کو حضرت کی خدمت کی، ان کو وضو کرایا، نہانے کے لیے پانی گرم کیا اور جمعہ میں شیخ کی تقریر سنی، پھر رات کو رہے اور سنیچر کی صبح کو مدرسے پہنچ گئے۔ تو اساتذہ کہتے تھے کہ تمہاری استعداد کمزور ہوجائے گی لیکن جب مضمون دیا گیا کہ سب لوگ عربی میں مضمون لکھیں تو اس سال میں شرح وقایہ پڑھتا تھا، میں نے پینتیس صفحوں میں عربی کا مضمون لکھا تو بخاری شریف والوں کے مضمون سے میرے مضمون کے اعلیٰ نمبر آئے، تب سب نے کہا کہ ارے بھئی! اس کو بدھو مت سمجھو، اس کو شیخ عبدالغنی صاحب کی کرامت حاصل ہے۔