داستان اہل دل |
ہم نوٹ : |
|
تو یہ بھی اَلدَّالُّ عَلَی الْخَیْر ہے کیوں کہ بغیر پیر کے جو رہتا ہے، جس کا کوئی مربی نہیں ہوتا وہ مربہ نہیں بن سکتا، کتابوں سے کوئی کیفیاتِ احسانیہ نہیں پاسکتا، کیفیتِ احسانیہ قلب سے قلب میں منتقل ہوتی ہے۔ اخلاص اور اﷲ کی حضوری یعنی احسان یہی ہے: اَنْ یُّشَاہِدَ رَبَّہٗ بِقَلْبِہٖ حَتّٰی کَاَ نَّہٗ یَرَی اللہَ تَعَالٰی شَانُہٗ بِعَیْنِہٖ 13؎یعنی اﷲ تعالیٰ کو ہر وقت اپنے دل کی آنکھ سے دیکھے کہ اﷲ مجھ کو دیکھ رہا ہے۔ یہ کیفیت ہے کمیت نہیں ہے۔ نبی کے قلبِ مبارک میں اتنی بڑی احسانی کیفیت تھی کہ صحابہ نے قلبِ نبوت سے جو کیفیتِ احسانیہ حاصل کی وہ اب کسی کو نہیں مل سکتی، لہٰذا اب قیامت تک کوئی صحابی نہیں ہوسکتا کیوں کہ قلبِ نبوت نہیں پاسکتا۔ اولیاء سے جس کے اندر کیفیتِ احسانیہ منتقل ہوتی ہے تو وہ ولی تو ہوسکتا ہے صحابی نہیں ہوسکتا کیوں کہ صحابی وہ ہوتا ہے جس کو کیفیاتِ احسانیہ نبی کے قلب سے حاصل ہوں۔ تو کیفیاتِ احسانیہ کے لیے کچھ دن جا کے شیخ کے ساتھ رہو ؎ کبھی کبھار وِزِٹ کو تو کمپنی نہیں کہتے یہ مولانا منصور صاحب کا مصرع ہے۔ لہٰذا جب ایک طوفان کے ساتھ دوسرا طوفان دریا میں مل جائے توپھر دیکھو ؎ نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں مئے مرشد کو مئے حق میں ملا لینے دو شیخ کی محبت کو اﷲ کی محبت سے ملاؤ پھر دیکھو کہ کیسی مستی ہوتی ہے ۔ نگاہِ اولیاء رنگ لاتی ہے میری حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ سے پہلی ملاقات ہوئی تو وہاں علمائے ندوہ بھی موجود تھے۔ تو حضرت نے فرمایاکہ اے ندوہ کے علما! بُری نظر کو تو تم تسلیم _____________________________________________ 13؎فتح الباری للعسقلانی:37/1،(50)، باب سؤال جبرئیل النبی صلی اللہ علیہ وسلم ،ذکرہ بلفظ کأنہ یراہ بقلبہ فیکون مستحضرًا ببصیرتہ وفکرتہ،المکتبۃ الغرباء الاثریۃ،المدینۃ المنورۃ