داستان اہل دل |
ہم نوٹ : |
|
کُلَّ یَوۡمٍ ہُوَ فِیۡ شَاۡنٍ 3؎ علامہ آلوسی تحریر فرماتے ہیں: کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ میں یوم بمعنیٰ یوم نہیں ہے بلکہ اَیْ فِیْ کُلِّ وَقْتٍ مِّنَ الْاَوْقَاتِ وَفِیْ کُلِّ لَمْحَۃٍ مِّنَ اللَّمْحَاتِ وَفِیْ کُلِّ لَحْظَۃٍ مِّنَ اللَّحْظَاتِ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ 4؎ یعنی ان کی ہر وقت، ہر لمحہ، ہر پل نئی شان ہے۔ جب ان کی ہر وقت نئی شان ہے تو ا ن کے عاشقوں کی بھی ہر وقت نئی شان رہتی ہے۔ یہ جو نئے نئے مضمون عطا ہوتے ہیں یہ بھی نئی شان ہے، نئی کیفیات، نیا دردِ دل، اپنے مفہوم میں اﷲ کی محبت کے مفاہیم کی تعبیر کے لیے خدا کے عاشقوں کو نئے نئے جام ومینا عطا ہوتے ہیں۔ میرا شعر ہے ؎ وہ خمر کہن تو قوی تر ہے لیکن نئے جام و مینا عطا ہو رہے ہیں خونِ تمنا مطلع آفتابِ نسبت ہے بہت خونِ تمنا سے ملا سلطانِ جاں مجھ کو دیکھو! اس کی ایک اور شرح بتاتا ہوں۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے قرب کو خونِ تمنا پر کیوں موقوف فرمایا؟ اس کا ایک تکوینی راز ہے کہ دنیا کو جب سورج ملتا ہے تو مشرق لال ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اﷲ تعالیٰ اپنے عاشقوں کے قلب میں اپنی نسبت اور تعلق مع اﷲ کا آفتاب طلوع فرمانے سے پہلے خونِ تمنا کی توفیق دیتے ہیں، حرام تمناؤں کے خون سے اس کے دل کا افق لال ہوجاتا ہے اور پھر آفتابِ قرب طلوع ہوتا ہے۔ لہٰذا جس کو حرام آرزو اور بُری خواہشات کے خونِ تمنائے حرام کی توفیق ہونے لگے تو سمجھ لو اس کو نسبت مع اﷲ کی عظیم دولت ملنے والی ہے، اور جو بُری خواہشات کا غلام ہے، جہاں چاہتا ہے سانڈ کی طرح نظر ڈالتا ہے، تو سمجھ لو کہ اﷲ تعالیٰ کے آفتابِِ قرب سے محرومی اس کا مقدر ہے، اس تقدیر کو بدلنے کے لیے اہل اﷲ کی صحبت اختیار کیجیے اور خونِ تمنا کی مشق کیجیے، اہل اﷲ کی صحبت سے ان شاء اﷲ تعالیٰ شقاوت سعادت سے بدل جائے گی: ھُمُ الْجُلَسَاءُ لَایَشْقٰی جَلِیْسُھُمْ 5؎ _____________________________________________ 3؎الرحمٰن:29 4؎روح المعانی:110/27،الرحمٰن(29)،داراحیاء التراث، بیروت 5؎صحیح البخاری: 948/2، (6443) ، باب فضل ذکراللہ تعالٰی،المکتبۃ القدیمیۃ