داستان اہل دل |
ہم نوٹ : |
|
بہت مجبور کرتی ہے مری آہ و فغاں مجھ کو یعنی میرے شہروں شہروں اور ملکوں ملکوں پھرنے کی وجہ میری آہ و فغاں ہے جو مجھے مجبور کرتی ہے کہ اللہ کی محبت کی لذتِ درد کو سارے عالم میں نشر کروں، خود بھی دیوانہ بنوں اور لوگوں کو بھی اللہ کا دیوانہ بناؤں۔ بیانِ محبت کی کرامت کہاں تک ضبطِ غم ہو دوستو راہِ محبت میں سنانے دو تم اپنی بزم میں میرا بیاں مجھ کو دیکھو! اس شعر کے اندر میں نے اﷲ تعالیٰ کی محبت کے بیان کا مزہ پیش کیا ہے کہ ظالمو! ہمیں ایک دفعہ اﷲ تعالیٰ کی محبت کا مزہ سنانے دو پھر تمہیں معلوم ہوگا کہ چین اﷲ کے نام میں ہے یا رین (RAN) میں ہے اور اس شعر میں سارے عالم کے سلاطین شامل ہیں مسلمان ہوں یا کافر ہوں، کیوں کہ یہ شعر کہتے وقت میرے سامنے یہ جغرافیہ تھا کہ اگر سارے عالم کے سلاطین اور جو سلاطین کافر ہیں وہ مسلمان ہو کر اختر کے ہاتھ پر بیعت ہوجائیں اور میرے سامنے بیٹھ جائیں، پھر مجھے اﷲ تعالیٰ کی محبت کا بیان کرنے کا موقع دیں اور ہر بادشاہ کی زبان کا ترجمان، ٹرانسلیٹر بھی ہو تو میں دیکھتا ہوں کہ ان کی سلطنت کہاں رہتی ہے، ان شاء اﷲ تعالیٰ مجھے امید ہے کہ ان کے دلوں پر زلزلہ نہیں زلازِل آئیں گے اور ان کی آنکھیں اشکبار ہوجائیں گی اور اختر کی تقریر سے ان کے دل تڑپ جائیں گے ؎ جو چپ بیٹھوں تو اک کوہِ گراں معلوم ہوتا ہوں جو لب کھولوں تو دریائے رواں معلوم ہوتا ہوں اگر خاموش رہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ نسبت کا ایک پہاڑ ہے اور جب بولنا شروع کرتا ہوں تو ایک دریا ہے جو رواں معلوم ہوتا ہے۔ اختر اپنے دردِ دل اور بیانِ دردِ دل اور زبانِ ترجمانِ دردِ دل کے لیے اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے یہ امید رکھتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کان بھی عطا فرمائے گا جو آشنائے دردِ دل ہوں اور عاشقِ داستانِ دردِ دل ہوں۔ میں عاشقوں کو اﷲ سے مانگ رہا ہوں، الحمدﷲ! ہر سفر میں کافی دوست احباب جمع ہوجاتے ہیں۔