داستان اہل دل |
ہم نوٹ : |
|
کرتے ہو، اسلام کا عقیدہ ہے، حدیث میں ہے اَلْعَیْنُ حَقٌّ بُری نظر لگ جاتی ہے اس کو مان لیتے ہو تو اﷲ والوں کی اچھی نظر کو کیوں نہیں تسلیم کرتے ہو؟ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں ہے فَکَیْفَ نَظَرُ الْعَارِفِیْنَ الَّذِیْ یَجْعَلُ الْکَافِرَ مُؤْمِنًا وَالْفَاسِقَ وَلِیًّا وَالْجَاہِلَ عَالِمًا 14؎ پھر ہنس کر یہ شعر پڑھا ؎ تنہا نہ چل سکیں گے محبت کی راہ میں میں چل رہا ہوں آپ میرے ساتھ آئیے تفسیر روح المعانی کی عبارت ہے خَالِطُوْھُمْ لِتَکُوْنُوْا مِثْلَھُمْ 15؎ اﷲ والوں کے ساتھ، اپنے شیخ کے ساتھ، اپنے مربی کے ساتھ اتنا رہو، اتنا اختلاط رکھو کہ لِتَکُوْنُوْا مِثْلَھُمْ تم بھی اُن ہی جیسے ہوجاؤ، اُن ہی جیسے بولنے لگو، وہی آہ و فغاں، چشمِ اشکبار، تڑپتا ہوا قلب، شیخ کی ساری کیفیات اور کمیات تم میں منتقل ہوجائیں چاہے کمیات منتقل نہ ہوں مثلاًشیخ پہلوان کی طرح ہے اور مرید کمزور ہے تو اس جیسا ہونے کے لیے کیفیاتِ احسانیہ کافی ہیں، پھر اس کی دو رکعت بھی لاکھ رکعات کے برابر ہوجائیں گی۔ مجاہدہ بقدرِ استطاعت فائدہ مند ہے میرے شیخ شاہ عبد الغنی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ جو قوی ہے، پہلوان ہے وہ چوبیس ہزار دفعہ اﷲاﷲ کرکے جہاں پہنچے گا ایک کمزور آدمی سو دفعہ اﷲاﷲ کرکے اسی مقام پر پہنچے گا کیوں کہ اﷲ تعالیٰ نے فَاتَّقُوا اللہَ مَا اسۡتَطَعۡتُمۡ 16؎ فرمایا ہے یعنی جتنی تمہاری استطاعت ہو، تو پہلوان چوبیس ہزار دفعہ اﷲاﷲ کرتا ہے اور یہ غریب کمزور ہے، درس وتدریس سے تھک جاتا ہے، یہ سو دفعہ پڑھنے سے وہیں پہنچے گا جہاں چوبیس ہزار والا پہنچتا ہے۔ ویسے بھی اس زمانے میں بوجہ طبیعتوں کے ضعف کے لوگوں میں زیادہ وظائف و اذکار کا تحمل نہیں ہے۔ زیادہ وظائف سے لوگوں میں غصہ، چڑچڑا پن، نفسیاتی امراض، ڈپریشن، ٹینشن وغیرہ ہو رہے ہیں۔ اس لیے میں اس _____________________________________________ 14؎مرقاۃ المفاتیح: 364/8،کتاب الطب والرقی،المکتبۃ الامدادیۃ، ملتان 15؎روح المعانی:56/11،التوبۃ (119)،داراحیاء التراث، بیروت 16؎التغابن:16