داستان اہل دل |
ہم نوٹ : |
|
علامہ ابنِ حجرعسقلانی رحمۃ اﷲ علیہ نے شرح بخاری میں اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے اِنَّ جَلِیْسَھُمْ یَنْدَرِجُ مَعَھُمْ فِیْ جَمِیْعِ مَا یَتَفَضَّلُ اللہُ بِہٖ عَلَیْھِمْ 6؎ اﷲ والوں کے پاس بیٹھنے والوں کو اﷲ تعالیٰ ان ہی کے ساتھ درج کرلیتا ہے اور جو افضال اور جو رحمتیں اﷲ والوں پر نازل کی جاتی ہیں اﷲ ان کے ساتھیوں کو بھی محروم نہیں کرتا لیکن رفاقت میں حُسن اور اخلاص ہونا چاہیے۔ میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃاﷲ علیہ فرماتے تھے کہ علامہ محمود نسفی نے تفسیر خازن میں فرمایا کہ وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا 7؎ حَسُنَ معنیٰ میں مَااَحْسَنَ کے ہے، یہ افعالِ تعجب میں سے ہے کہ اﷲ والے کیا ہی اچھے رفیق ہیں، تو ان کی رفاقت کو حسین بنانے کی کوشش کرو یعنی رفاقت فی العمل میں اخلاص اور خونِ تمنا کی مشق کرنے کی عادت ڈالو۔ ورنہ بزرگوں کے دسترخوان پر سموسہ پاپڑ تو مِل جائے گا مگر اﷲ نہیں ملے گا، اگر نعمتیں پاگئے اور نعمت دینے والا نہ پایا تو ایسی نعمتیں تو کافر بھی کھاتا ہے پھر تم میں اور کافر میں کیا فرق ہے؟ بھئی نعمت تو کافر بھی استعمال کرتا ہے مؤمن کی شان یہ ہے کہ نعمت دینے والے کو قلب میں حاصل کرے، نسبت مع اﷲ علی سطح الولایت حاصل کرے، جو اولیاء اﷲ کو نصیب ہوتی ہے، جو نصیبِ دوستاں ہے، یہ اﷲ کے اولیاء کی قسمت ہے کہ وہ خونِ آرزوئے حرام کی عادت ڈالتے ہیں ۔ اب کوئی کہے کہ مولوی بننے میں، اللہ والا بننے میں کوئی تمنا ہی پوری نہیں ہوگی، تو جائز تمنا پوری کرو، مرنڈا پینے کو دل چاہے خوب پیو، مرغی کھاؤ، اپنی بیوی کو ایک ہزار دفعہ دیکھو لیکن دوسروں کی وائف مت دیکھو ورنہ ویلیم فائیو کھانی پڑے گی، نیند اُڑ جائے گی اورکوائف خراب ہوجائیں گے ۔ لہٰذا کسی حسین کو بصورتِ پیار بھی نہ دیکھو، بصورتِ غصہ بھی نہ دیکھو۔ بعض لوگ ایئر ہوسٹس کو بہت ڈانٹتے ہیں کہ ہم نے کافی مانگی تھی تم نے چائے دے دی، لیکن ڈانٹنے میں بھی پوری آنکھیں کھول کر اس کے اوپر شعاعِ بصریہ کاملہ ڈالتے ہیں، لہٰذا ہوشیار ہوجاؤ، ان کو نہ پیار سے دیکھو نہ غصے سے دیکھو، قصائی کی نظر سے بھی نہ دیکھو چاہے عیسائی ہو یا ڈیسائی ہو۔ _____________________________________________ 6؎فتح الباری:213/11، باب فضل ذکراللہ تعالٰی،دارالمعرفۃ ، بیروت 7؎النسآء:69