لذت اعتراف قصور |
ہم نوٹ : |
وَاعْفُ عَنَّا ، وَاغْفِرْلَنَا ، وَارْحَمْنَا سب میں ضمیر مستتر اَنْتَ چھپی ہو ئی ہے کہ آپ معاف کر دیجیے مگر اَنْتَ کہنے کی اجازت نہیں ہے لیکن جب ہم نے تم کو معاف کردیا، جب مغفرت ہوگئی، معافی ہوگئی، تم سے ہم نے حجابات ہٹا لیے اور تم انوار کے عالم میں آگئے تو گناہوں کی وجہ سے جو ضمیر مستتر تھی وہ ختم ہوگئی، لہٰذا اب اَنْتَ مَوْلٰنَا کہو کہ آپ ہی میرے مولیٰ ہیں۔ جب حجابات ہٹ گئے اور ہم نے اپنے غصے کے پردے ہٹا لیے تو اب تم میرے سامنے ہو ؎ تم ہمارے ہم تمہارے ہو چکے دونوں جانب سے اشارے ہوچکے لہٰذا اب کہو اَنْتَ مَوْلٰنَا اب اَنْتَ کی اجازت ہے، اَنْتَ بتا رہا ہے کہ گناہوں کے حجابات ختم ہوچکے، ورنہ جب تک وہ سامنے نہ ہوں کوئی اَنْتَ نہیں کہہ سکتا، یہی دلیل ہے کہ اب تمہارے سامنے سے گناہوں کے حجابات ہٹ گئے، اب ہم کو اَنْتَ مَوْلٰنَا کہو۔ اَنْتَ مَوْلٰنَا کی تین تفسیریں ہیں: اَنْتَ سَیِّدُنَا آپ میرے سردار ہیں، آقا ہیں، وَمَالِکُنَا اور آپ ہمارے مالک ہیں، وَمُتَوَلِّیْ اُمُوْرَنَا 25؎ اور ہمارے اُمور کے اور کاموں کے بنانے والے ہیں فَانۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ اب ہمیں دشمنوں سے نہ پٹوائیے کہ ہم آپ کے بن چکے ہیں۔ یہ روح المعانی کی تفسیر ہے۔ واہ رے! مفسرِ عظیم علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ یہ صاحبِ نسبت بزرگ تھے، مولانا خالد کُردی کے مرید تھے۔ وَاعْفُ عَنَّا الخ کی یہ تفسیر لکھ لو، آپ کو پکی پکائی کھچڑی مل گئی ورنہ کتابوں میں تلاش کرنے میں بڑی محنت لگتی۔ وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ _____________________________________________ 25؎روح المعانی:71/3، البقرۃ (286)،دار احیاء التراث، بیروت