لذت اعتراف قصور |
ہم نوٹ : |
|
بتاؤ معشوق تلاش کرو گے یا روٹیاں مانگوگے؟ اسی لیے میں دوستوں سے کہتا ہوں کہ باوفا رہو، باحیا رہواو رباخدا رہو بس تین کام کرلو پھر دیکھو، دنیا میں تم ایک لیلیٰ کے چکر میں ہو وہ بھی عَلٰی مَعْرِضِ الْجُوْتَا ہے، پکڑے گئے تو جوتا پڑے گا، اور تقویٰ سے رہو گے تو تمہارے جوتے اٹھائے جائیں گے، نافرمانی کرو گے تو سر پر جوتے پڑیں گے۔ عشقِ مولیٰ والوں کے جوتے اٹھائے جاتے ہیں اور عشقِ لیلیٰ والوں کی کھوپڑی پر جوتے مارے جاتے ہیں۔ قدرتِ تقویٰ ہر ایک میں ہے حکیم الامت فرماتے ہیں کہ جب تک جان ہے ہمتِ تقویٰ ہے۔ اگر ہمتِ تقویٰ نہ ہو تو تقویٰ فرض نہیں رہے گا ورنہ ظلم ہوجائے گا، جب طاقتِ تقویٰ اور ہمتِ تقویٰ نہیں ہے پھر تقویٰ فرض کرنا ظلم ہے یانہیں؟ اور اﷲ تعالیٰ ظلم سے پاک ہے تو معلوم ہوا کہ مرتے دم تک ہمتِ تقویٰ اور طاقتِ تقویٰ موجود ہے لیکن استعمالِ ہمتِ تقویٰ اور استعمالِ قدرتِ تقویٰ میں ہم مجرم ہیں۔ اس لیے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: فَاتَّقُوا اللہَ مَا اسۡتَطَعۡتُمۡ 13؎تم اﷲ سے ڈرو جتنی تمہاری استطاعت ہے او راستطاعت کا استعمال کرنے ہی میں ہم غفلت برتتے ہیں جبکہ اﷲ والے ہمیشہ غمگین رہتے ہیں، روتے ہیں کہ معلوم نہیں ہم نے استطاعت کا حق ادا کیا یا نہیں؟ یعنی جتنی ہماری قدرت ہے اتنا ہم نے استطاعت کا حق ادا کیا یا نہیں؟ جتنی ہماری نظر بچانے کی قدرت ہے اس قدرت کو ہم نے استعمال کیا یا نہیں یا ہم اس میں چور اور خائن ہیں، اسی فکر و غم میں وہ مرتے رہتے ہیں، ساری زندگی گھلتے رہتے ہیں، اشکبار آنکھوں سے معافی مانگتے رہتے ہیں۔ حکیم الامت نے ایک عجیب بات فرمائی کہ جو شخص کہے کہ مجھے طاقت نہیں رہتی، حسینوں کو دیکھ کے میں پاگل ہوجاتا ہوں، پرانی عادت راسخ ہوچکی ہے تو اس کا جواب حکیم الامت نے دیا کہ قدرت ہمیشہ ضدین سے متعلق ہوتی ہے یعنی جس کام کو کرنے کی قدرت ہوتی ہے آدمی اس کو نہ کرنے پر بھی قادر ہوتا ہے۔ جو آدمی ہاتھ اٹھا سکتا ہے وہ اسے نیچے بھی گرا سکتا ہے، _____________________________________________ 13؎التغابن:16