لذت اعتراف قصور |
ہم نوٹ : |
جائے اور شیخ کا بھی دل صاف ہوجائے۔ اگر میں ناراض ہوتا تو آپ کو فوراً حکم دیتا کہ آپ معافی مانگو! لہٰذا یہ سوچنا کہ شیخ کے دل میں میرے لیے ناراضگی ہے لیکن وہ مجھے بتا نہیں رہا ہے، یہ بدگمانی بھی حرام ہے اس سے بھی توبہ کرو، وہ شیخ ہی نہیں ہے جو اپنی روحانی اولاد سے دل میں رنج رکھے اور ظاہر نہ کرے، یہ کوئی شیخ ہے؟ یہ بھی محبت کے خلاف ہے۔ شیخ پر شانِ رحمت کا غلبہ ہونا چاہیے اگر اﷲ تعالیٰ ناراض ہوتے اور حضرت آدم علیہ السلام کو رَبَّنَا ظَلَمْنَا نہ سکھاتے تو حق تعالیٰ کی رحمت کے خلاف ہوتا کہ نہیں؟ تو ارحم الراحمین کی شان دیکھیے فَتَلَقّٰۤی اٰدَمُ مِنۡ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ 19؎ حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے کلمات لیے اور اﷲ نے انہیں رَبَّنَا ظَلَمْنَا سکھایا، تو جس طرح اﷲ ارحم الراحمین ہے شیخ پر بھی شانِ رحمت کا غلبہ ہونا چاہیے، اس کی ذمہ داری اور فرض ہے کہ اگر کوئی بات اس کو کھٹکے تو مرید پر ظاہر کردے اور اس کو معافی کے لیے مشورہ دے۔ پوچھو! میرصاحب سے، جب کبھی ان سے غلطی ہوئی میں نے فوراً ان سے کہا کہ جلدی سے معافی نامہ لکھو تاکہ دل کو صاف کرلیاجائے۔ میں نے تو مستقبل کے لیے اﷲکی ناراضگی اور اپنی تکلیف سے مرید کو بچانے کے لیے اور مرید کو خوش نصیب بنانے کے لیے ایک خاکہ پیش کیا ہے تو اس سے خوش ہونا چاہیے کہ شیخ مجھے مستقبل کے لیے ایک راستہ بتا رہا ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ اسے ایک خاکہ سمجھے وہ شیخ کی ساری تقریر میں اپنے ماضی کے مردوں کو ہی سوچ رہا ہے کہ چل کر قبرستان کے مردے اکھاڑنے ہیں۔ جب شیخ معاف کردے تو ماضی کے گناہ کو یاد کرنا بھی حرام ہے۔ میں نے ایک دفعہ اپنے حضرت سے عرض کیا کہ حضرت دو مہینے پہلے ایک خطا ہوگئی تھی، میں نے معافی تو مانگ لی تھی مگر پھر وسوسہ آرہا ہے کہ معافی مانگنی چاہیے، لہٰذا پھر معاف کردیجیے۔ فرمایا: کہ دیکھو جب مردہ دفن کردیا جاتا ہے پھر اس کو اکھاڑا نہیں جاتا۔ ایک دفعہ شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کو بھی لکھا تھا کہ مجھ کو ڈر لگتا ہے کہ کہیں آپ مجھ سے ناراض _____________________________________________ 19؎البقرۃ:37