لذت اعتراف قصور |
ہم نوٹ : |
|
کو سکھاتا ہوں مگر پتا نہیں کیوں ان کے دماغ میں ادب کی یہ باتیں نہیں گھستیں، دماغی کمزوری ہے یا کیا ہے، بھول جاتے ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ بیٹا اعترافِ قصور اور سزا کے لیے تیار ہوا، تو باپ خود رونے لگا، غصّہ ختم کرنے کے لیے اس سے بہتر کوئی راستہ نہیں ہے۔ تو بار بار کہتا ہوں کہ جب شیخ گرفت کرے تو چاہے تمہارے پاس لاکھ عذر ہوں مگر کچھ نہ بولو، بس یہ کہہ دو کہ حضرت مجھ سے غلطی ہوئی، مجھے اعترافِ قصور ہے، میں نالائق ہوں، نادان ہوں، مجھ سے غلطی ہوگئی، معافی چاہتا ہوں، بس بات ختم، معافی مانگنے سے بات کبھی بھی آگے نہیں بڑھے گی، چاہے تمہارے دماغ میں کتنا ہی خناس آئے کہ اس وقت ہم قابلِ گرفت نہیں ہیں، ہم پر ظلم ہو رہا ہے، یہ شیطانی مرض ہے۔ یہی سمجھ لو کہ جس مقام سے شیخ گرفت کررہا ہے اس مقام کو ہم نہیں سمجھ پارہے، اگر چہ ہماری خطا چھوٹی سی ہے۔ شیخ کی نظر مرید کے تمام مصالحِ دینیہ کو محیط ہوتی ہے حکیم الامت فرماتے ہیں کہ بعض وقت خطا چھوٹی سی ہوتی ہے مگر اس کا منشا اور جڑ خطرناک ہوتی ہے، مثلاً اس میں کبر چھپا ہوتا ہے۔ بعض وقت میں شیخ بڑی خطا کو معاف کر دیتا ہے اور چھوٹی خطا پر سخت گرفت کرتا ہےکیوں کہ اس کی نظر اصلاح مرید کے مصالحِ دینیہ کا دور تک احاطہ کر رہی ہوتی ہے۔ لہٰذا دو جملے میں خود بھی آرام سے رہو اور شیخ کو بھی آرام سے رکھو۔ بولو بھئی! شیخ کو آرام سے رکھنا مطلوب ہے یا نہیں؟ خاص کر جو رات دن ساتھ رہیں۔ لہٰذا ان لوگوں کو دو رکعت پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے بھی معافی مانگنی چاہیے جنہوں نے اپنے شیخ کو اپنی حماقتوں سے ایذا رسانی کی۔تواگر مگر لگانے کے بجائے فوراً اعترافِ قصور کرو۔ یہ حکیم الامت کا ارشاد ہے کہ مجھے تاویلات کرنے والوں پر ہمیشہ غصّہ آتا ہے، اگر وہ کہہ دیں کہ خطا ہوگئی، معافی چاہتا ہوں تو بات ختم، شیخ اس سے زیادہ کیا چاہے گا۔ شیخ خود چاہتا ہے کہ تم بھی آرام سے رہو اور میں بھی آرام سے رہوں۔ یہ قابلیت کا راستہ نہیں ہے، یہ عاشقی اور آہ وزاری اور نیاز مندی کا راستہ ہے، اپنی سب قابلیت کو لات ماردو اور یہ کہو کہ ہم کچھ نہیں ہیں، جاہلِ مطلق ہیں۔ ان تاویلات میں نفس کا بہت بڑا چور ہے، شیطان نہیں چاہتا کہ اپنے اوپر کوئی بار آئے، بارِ خطا جو نعمت تھی اس کو یہ بے وقوف حماقت سے نہیں سمجھا۔