لذت اعتراف قصور |
ہم نوٹ : |
خدمتِ شیخ کے لیے عقل و فہم کی ضرورت ہے میں کہتا ہوں کہ عشق کے ساتھ تھوڑی سی دانائی بھی شامل کرلو، شیخ کی محبت میں جان دے دو مگر شیخ کو ستا ستا کے پاگل پن یا فالج میں مبتلا نہ کرو، شیخ کی خدمت دانائی کے ساتھ کرو، پاگلوں کی طرح سے محبت و خدمت مت کرو جیسے ایک ریچھ نے محبت کی تھی۔ ایک ریچھ اپنے مالک کو پنکھا ہنکا رہا تھا، اس نے ریچھ کو سکھا دیا تھا، ایک مکھی اس کے مالک پر بیٹھی تو اس نے ہانک دیا پھر بیٹھی پھر ہانک دیا جب تین چار دفعہ بیٹھی تو ریچھ ایک پتھر لے آیا اور اس مکھی کو زور سے مارا تو مالک کی ناک پھٹ گئی اور وہ مرگیا، تو نیت تو اس کی اچھی تھی۔ اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ میری نیت تو آپ کو اذیت دینے کی نہیں تھی تو ریچھ والی محبت مت کرو، اﷲ سے عقل وفہم مانگو، اﷲ سے رو رو کے یہ کہو کہ اے خدا! میرے شیخ کے بال بال کو میرے لیے دعا گو بنا اور ان کی آنکھیں مجھ سے ہمیشہ ٹھنڈی فرما، میری ذات سے ان کو ایک اعشاریہ بھی غم یا تکدر نہ پہنچے۔یہ دعا بہت ضروری ہے، اگر اس دعا کی توفیق نہیں ہے تو وہ ظالم محروم القسمت ہے، شقاوتِ ازلیہ اس کے مقدر میں ہے۔ دو نعمتیں:۱)اتباعِ سنت،۲)رضائے شیخ حکیم الامت کا ارشاد ہے کہ جس کو اتباعِ سنت اور رضائے شیخ نصیب ہو تو ا س کے اندھیرے بھی اُجالے ہیں اور اگر اتباعِ سنت تو کرتا ہے مگر شیخ کو ناراض کیے ہوئے ہے تو شیخ کو ناراض کرنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی باپ کو ناراض کرے، تو جس طرح ماں باپ کو خوش کرنا ضروری ہے اسی طرح شیخ کی رضا بھی ضروری ہے اور جو شیخ کو ناراض رکھتا ہے تو یہ شخص بھی محروم رہے گا اور اس کے اُجالے بھی اندھیرے ہیں، اگر اس کو روشنی بھی نظر آتی ہے تو سمجھ لو سب دھوکا ہے۔ شیخ دروازۂ فیض ہے اس پر اﷲ تعالیٰ نے ایک بات دل میں ڈالی کہ شیخ دروازۂ رحمت اور دروازۂ فیض ہے، مبدأ فیاض سے بندے تک وہ بیچ میں کٹ آؤٹ اور واسطہ ہوتا ہے اور ہر انسان اپنے دروازے کی صفائی کو محبوب رکھتا ہے اور دروازے کو گندا رکھنا مشابۂ یہودیت ہے ،یہودی لوگ اپنے