لذت اعتراف قصور |
ہم نوٹ : |
|
اﷲ کے راستے کا ادب نہیں ہے، فوراً اعتراف کرلو اگر چہ قصور نہ بھی ہو، جو مزہ رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ میں ہے وہ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ 14؎ میں نہیں ہے جیسا کہ شیطان نے کہا تھا کہ اے اﷲ! مجھے آپ نے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے اور اس میں کبریٰ محذوف ہے، وہ کیا ہے کہ اَلنَّارُ اَفْضَلُ مِنَ الطِّیْنِ آگ افضل ہے مٹی سے، تو گویا آپ افضل کو فاضل کے سامنے سجدے کا حکم دے رہے ہیں، ابلیس اﷲ میاں کو یہ مشورہ دے رہا ہے۔ آیت رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ … الخ سے ادبِ اعترافِ قصور کی دلیل اسی لیے کہتا ہوں کہ شیخ کے ساتھ اگر مگر اور بحث و مباحثہ عذرو تاویلات کاشیطانی راستہ اختیار نہ کرو بلکہ سیدھا سیدھا اعترافِ قصور کر لو۔ اگر کوئی پوچھے کہ یہ اعترافِ قصور آپ نے کہاں سے سیکھا تو سن لو کہ یہ تصوف بلادلیل نہیں ہے رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ نے یہ بتایا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام یہ کہہ سکتے تھے کہ اﷲ تعالیٰ میں بھول گیا تھا لیکن آپ نے اعترافِ قصور کرلیا۔ جب آدم علیہ السلام نے ممنوعہ درخت کو کھا لیا تو اﷲ تعالیٰ خود فرماتے ہیں کہ فَنَسِیَ آدم علیہ السلام بھول گئے تھے وَ لَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا 15؎ ان کے قلب میں خطا کے ارادے کا ایک ذرّہ تک نہیں تھا، عَزْمًا نکرہ ہے اور لَمْ نفی ہے تو عَزْمًا نکرہ تحت النفی ہے جو عموم کا فائدہ دیتا ہے اِنَّ النَّکِرَۃَ اِذَا وَقَعَتْ تَحْتَ النَّفْیِ تُفِیْدُ الْعُمُوْمَ یعنی ہم نے آدم علیہ السلام کے دل میں ارادۂ نافرمانی کا ایک اعشاریہ، ایک ذرّہ بھی نہیں دیکھا۔اس سے بڑی کیا دلیل ہوسکتی ہے؟ لیکن پھر بھی حضرت آدم علیہ السلام نے کوئی عذر نہیں پیش کیا، یہ نہیں فرمایا کہ یا اللہ! میں بھول گیا تھا، جب شیطان نے آپ کا نام لیا اور قسم اٹھائی تو آپ کے نام سے میں اتنامست ہوگیا تھا کہ آپ کا حکم بھول گیا،جبکہ حقیقت بھی یہی تھی کہ آپ بھول گئے تھے۔ شیطان ظالم نے قسم کھائی تھی کہ اے آدم! اﷲ کی قسم! اگر تم نے اس ممنوعہ درخت کو کھالیا تو تم ہمیشہ جنت میں رہو گے۔ حکیم الامت فرماتے تھے کہ اﷲکے نام سے آپ پر نشہ طاری ہوگیا تھا ؎ _____________________________________________ 14؎صٓ:76 15؎طٰہٰ:115