Deobandi Books

لذت اعتراف قصور

ہم نوٹ :

16 - 42
اﷲ کے راستے کا ادب نہیں ہے، فوراً اعتراف کرلو اگر چہ قصور نہ بھی ہو، جو مزہ رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ میں ہے وہ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ14؎ میں نہیں ہے جیسا کہ شیطان نے کہا تھا کہ اے اﷲ! مجھے آپ نے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے اور اس میں کبریٰ محذوف ہے، وہ کیا ہے کہ اَلنَّارُ اَفْضَلُ مِنَ الطِّیْنِ   آگ افضل ہے مٹی سے، تو گویا آپ افضل کو فاضل کے سامنے سجدے کا حکم دے رہے ہیں، ابلیس اﷲ میاں کو یہ مشورہ دے رہا ہے۔
آیت رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ … الخ سے ادبِ                            اعترافِ قصور کی دلیل
اسی لیے کہتا ہوں کہ شیخ کے ساتھ اگر مگر اور بحث و مباحثہ عذرو تاویلات کاشیطانی راستہ اختیار نہ کرو بلکہ سیدھا سیدھا اعترافِ قصور کر لو۔ اگر کوئی پوچھے کہ یہ اعترافِ قصور آپ نے کہاں سے سیکھا تو سن لو کہ یہ تصوف بلادلیل نہیں ہے رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ نے یہ بتایا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام یہ کہہ سکتے تھے کہ اﷲ تعالیٰ میں بھول گیا تھا لیکن آپ نے اعترافِ قصور کرلیا۔
جب آدم علیہ السلام نے ممنوعہ درخت کو کھا لیا تو اﷲ تعالیٰ خود فرماتے ہیں کہ فَنَسِیَ آدم علیہ السلام بھول گئے تھے وَ لَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا15؎ ان کے قلب میں خطا کے ارادے کا ایک ذرّہ تک نہیں تھا، عَزْمًا نکرہ ہے اور لَمْ نفی ہے تو عَزْمًا نکرہ تحت النفی ہے جو عموم کا فائدہ دیتا ہے  اِنَّ النَّکِرَۃَ اِذَا وَقَعَتْ تَحْتَ النَّفْیِ تُفِیْدُ الْعُمُوْمَ یعنی ہم نے آدم علیہ السلام کے دل میں ارادۂ نافرمانی کا ایک اعشاریہ، ایک ذرّہ بھی نہیں دیکھا۔اس سے بڑی کیا دلیل ہوسکتی ہے؟  لیکن پھر بھی حضرت آدم علیہ السلام نے کوئی عذر نہیں پیش کیا، یہ نہیں فرمایا کہ یا اللہ!    میں بھول گیا تھا، جب شیطان نے آپ کا نام لیا اور قسم اٹھائی تو آپ کے نام سے میں اتنامست ہوگیا تھا کہ آپ کا حکم بھول گیا،جبکہ حقیقت بھی یہی تھی کہ آپ بھول گئے تھے۔ شیطان ظالم نے قسم کھائی تھی کہ اے آدم! اﷲ کی قسم! اگر تم نے اس ممنوعہ درخت کو کھالیا تو تم ہمیشہ جنت میں رہو گے۔ حکیم الامت فرماتے تھے کہ اﷲکے نام سے آپ پر نشہ طاری ہوگیا تھا  ؎
_____________________________________________
14؎    صٓ:76
15؎    طٰہٰ:115
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ جَہْدِ الْبَلَاءِ…الخ کی عجیب تشریح 7 1
3 جَہْدِ الْبَلَاءِ کی پہلی شرح 7 1
4 جَہْدِ الْبَلَاءِ کی دوسری شرح 10 1
5 دَرْکِ الشَّقَاءِ کی شرح 10 1
6 شاہراہِ اولیاء کو مت چھوڑو 11 1
7 یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ کے لیے ارادۂ خونِ تمنا بھی ضروری ہے 12 1
8 باوفا، باحیا، باخدا رہو 13 1
9 قدرتِ تقویٰ ہر ایک میں ہے 14 1
10 شیخ کے مواخذہ پر اعترافِ قصور کی تعلیم 15 1
11 آیت رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ … الخ سے ادبِ اعترافِ قصور کی دلیل 16 1
12 بے ادبی کا سبب کبر ہے 18 1
13 اغلاط کی تاویلات میں نقصان ہی نقصان ہے 18 1
14 شیخ کی نظر مرید کے تمام مصالحِ دینیہ کو محیط ہوتی ہے 20 1
15 خدمتِ شیخ کے لیے عقل و فہم کی ضرورت ہے 21 1
16 دو نعمتیں:۱)اتباعِ سنت،۲)رضائے شیخ 21 1
17 شیخ دروازۂ فیض ہے 21 1
18 عقل عقل سے نہیں فضل سے ملتی ہے 23 1
19 اصلی عاشقِ شیخ 24 1
20 موذی مرید 26 1
21 حضرت والا کی ایک خاص دعا 26 1
22 رموزِ احکامِ الٰہیہ کے درپے نہ ہوں 27 1
23 دین کا کوئی مسئلہ یا بزرگوں کی کوئی بات سمجھ نہ آنے پر کیا کرنا چاہیے؟ 28 1
24 شیخ کی کوئی بشری خطا نظر آئے تو کیا کرنا چاہیے؟ 28 1
25 شیخ کی بُرائی کرنے والے کا علاج 29 1
26 معترضانہ مزاج والوں کے لیے ہدایت 31 1
27 اپنی ناراضگی کو مرید پر ظاہر نہ کرنا شیخ پر حرام ہے 31 1
28 شیخ سے بدگمانی حماقت ہے 32 1
29 شیخ پر شانِ رحمت کا غلبہ ہونا چاہیے 33 1
30 شیخ سے بدگمانی شیطانی چال ہے 34 1
31 شیطان قلبِ مومن کو غمگین رکھنا چاہتا ہے 35 1
32 سُوْءِ الْقَضَاءِ کی شرح 36 1
33 بعض کفار کے قلوب پر مہر ِکفر ثبت ہونے کی وجہ 37 1
34 شَمَاتَۃِ الْاَعْدَاءِ کی شرح 39 1
35 ازالۂ حجاباتِ معصیت کے لیے ایک دعااوراس کی شرح 40 1
Flag Counter