لذت اعتراف قصور |
ہم نوٹ : |
جو حسینوں پر نظر ڈال سکتا ہے وہ ہٹا بھی سکتا ہے بشرطیکہ اللہ تعالیٰ کا ڈر ہو۔ اس کی ایک مثال میں دیتا ہوں کہ اگر پولیس کا سپرنٹنڈنٹ کہے کہ یہ میرا لڑکا یا میری لڑکی ہے، جو نظر باز یہ کہتا ہے کہ حسینوں کو دیکھ کر میں پاگل ہوجا تاہوں وہ آج میری لڑکی کو دیکھ کر دکھائے اور ایک ہاتھ میں اس کے پستول بھی ہو تو وہاں اس کا نفس بڑا عقل مند بن جاتا ہے۔ معلوم ہوا نظر بچانے کی طاقت ہے جبھی تو پستول دیکھ کر پاگل نہیں ہوا۔ آہ! مخلوق کے خوف سے نظر نیچی کرنے والو! اس بڑی طاقت کا بھی دھیان پیدا کرلو جسے ہماری نظر کی بینائی چھیننےیا ہمارے گردے بے کار کرنے کے لیے کسی پستول کی بھی ضرورت نہیں۔ تو میں یہ بتا رہا تھا کہ صحبتِ شیخ میں اوّل تو یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ ضروری ہے کہ مخلص ہو اور گناہوں سے بچنے کا مجاہدہ کرے اور دوسرے یہ کہ شیخ کی صحبت میں اس کے آداب کا خاص خیال رکھے۔ شیخ کے سامنے مٹ کر رہنا چاہیے، اس کی روک ٹوک اور ڈانٹ کو اپنی اصلاح کا ذریعہ اور شیخ کا پیار سمجھنا چاہیے، یہ نہیں کہ شیخ نے کسی بات پر ٹوک دیا یا پکڑ ہوگئی کہ یہ کام کیوں کیا تو اگر مگر اور بحث بازی شروع کردی۔ اس میں ایذائے شیخ ہے۔ شیخ کے مواخذہ پر اعترافِ قصور کی تعلیم ایک صاحب سے مولانا شاہ ابرارالحق صاحب بہت ناراض تھے، کئی برس سے ان کی خط وکتابت چل رہی تھی، میں حیدر آباد دکن گیا تو حضرت نے ان کو تار دے کر بلوایا اور فرمایا کہ تم اپنے معاملات کے سارے خطوط دکھاؤ، انہوں نے شیخ سے بڑی اگر مگر لگا رکھی تھی کہ اس میں یہ بات ہے، اس میں یہ وجہ ہے اور آپ ذرا ذرا سی بات میں ناراض ہوجاتے ہیں۔ تو حضرت نے لکھا کہ میں جتنا ناراض ہوتا ہوں اتنا ہی جلد راضی بھی تو ہوجاتا ہوں۔ شیخ نے ان کو میرے حوالے کر دیا کہ تم اس کو سمجھا ؤ۔ تو میں نے ان کو مشورہ دیا کہ آپ اگر مگر چھوڑ دو سیدھا سیدھا لکھ دو کہ میں اعترافِ قصور کرتا ہوں، اپنی تمام خطاؤں کی معافی چاہتا ہوں اور آیندہ ان شاء اﷲ احتیاط کروں گا۔ یہ ایسے جملے ہیں کہ جس سے شیخ کو اذیت نہیں پہنچتی۔ بس کیا کہیں، بے وقوف انسان اس کو سمجھتا نہیں ہے، اسی سے شیخ کو تکدر ہوتا ہے اور اذیت پہنچتی ہے، مرید یہ سمجھتا ہے کہ میں اگر مگر لگا کر دائرہ ٔمواخذے سے نکل جاؤں گا مگر یہ