لذت اعتراف قصور |
ہم نوٹ : |
|
جلیس بن جاؤ۔ آپ کو شقاوت کے پکڑنے سے تحفظ حاصل کرنا ہے تو بدنصیبی سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ جلدی سے کسی اﷲ والے کے پاس بیٹھ جاؤ لَا یَشْقٰی بِھِمْ جَلِیْسُھُمْ پوری کائنات میں شقاوت سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے، بدبختی بدنصیبی سے بچنے کا پورے عالم میں کوئی راستہ نہیں ہے، آپ ساری دنیا میں بھاگے بھاگے پھرو شرقاً، غرباً، شمالاً، جنوباً مگر شقاوت پھر بھی پکڑ لے گی لہٰذا لَایَشْقٰی بِھِمْ جَلِیْسُھُمْ اہل اﷲ کے پاس بیٹھ جاؤ تو آپ کی شقاوت پر لَا داخل ہوجائے گا اور اس لَا میں آپ کو حالاً و اِستقبالاً حفاظت کی ضمانت ہے کیوں کہ لَا یَشْقٰی مضارع کا لفظ ہے۔ یعنی آپ کی مستقبل کی بدنصیبی سے بھی اس میں حفاظت اور ضمانت ہے۔ شقاوت سے فی الحال بھی محفوظ اور آیندہ بھی محفوظ رہو گے، ان شاء اﷲ بدنصیبی نہیں آئے گی۔ جو اﷲ والوں کے ساتھ رہتے ہیں وہ مستقبل میں بھی بدنصیب نہیں ہوسکتے، مضارع میں حال اور استقبال دونوں زمانے ہوتے ہیں لہٰذا اﷲ والوں کے دوست خوش نصیبی کے ساتھ جیتے ہیں اور خوش نصیبی کے ساتھ مرتے ہیں۔ اس کی شرح علامہ ابنِ حجر عسقلانی نے شرحِ بخاری میں ان الفاظ سے فرمائی ہے: اِنَّ جَلِیْسَھُمْ یَنْدَرِجُ مَعَھُمْ اﷲ والوں کے پاس بیٹھنے والے ان ہی کے ساتھ مندرج ہوتے ہیں، اﷲ والوں کے پاس بیٹھنے والوں کو اﷲ ان ہی میں لکھ لیتا ہے، فِیْ جَمِیْعِ مَایَتَفَضَّلُ اللہُ بِہٖ عَلَیْھِمْ اِکْرَامًا لَّھُمْ 9؎ اور وہ تمام مہربانیاں جو اﷲ والوں پر برستی ہیں اﷲ ان کے ساتھیوں کو بھی دے دیتا ہے،کیوں کہ یہاں مفعول لہٗ آرہا ہے، مفعول لہٗ فعل کا سبب بیان کرتا ہے جیسے ضَرَبْتُہٗ تَادِیْبًا میں نے پٹائی کی اس کی ادب سکھانے کے لیے تو تَادِیْبًا منصوب کیوں ہے؟ کیوں کہ مفعول لہٗ ہے اور اگر آپ نے مَشْدُوْدًا کہہ دیا کہ باندھ کر رسی سے مارا تو مَشْدُوْدًا اس کا حال ہے اور فِی الْمَسْجِدِ کہہ دیا تو مکان بھی آگیا اور یہ مفعول فیہ ہوگیا۔ جَمِیْعِ مَایَتَفَضَّلُ اللہُ بِہٖ عَلَیْھِمْ اِکْرَامًا لَّھُمْ اس میں اپنے پیاروں کا اکرام ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمادیا کہ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ 10؎ اللہ والوں کے ساتھ رہو۔ شاہراہِ اولیاء کو مت چھوڑو ہمارے بزرگوں اور اکابر کا تعامل چلا آرہا ہے کہ شیخ سے بیعت ہونا اور ان کے _____________________________________________ 9؎فتح الباری:213/11، باب فضل ذکراللہ تعالٰی،دارالمعرفۃ، بیروت 10؎التوبۃ:119