اولیاء اللہ کی پہچان |
ہم نوٹ : |
|
صَمَدْ کی تفسیریہ ہے کہ اﷲ سارے عالَم سے بے نیاز ہے اور کسی کا محتاج نہیں لیکن سارا عالم اُس کا محتاج ہے تو جو بندہ ان ناموں کو پڑھے گا ان شاء اللہ وہ کسی کا محتاج نہیں ہوگا بلکہ اس نام کی برکت سے لوگو ں کی خدمت کرے گا، دوسروں کو مال دے گا۔ اس لیے میں علماء حضرات اور مدرسہ چلانے والوں کو کہتا ہوں کہ اللہ میاں کو زیادہ یاد کرو، ان شاء اللہ مال داروں کو اللہ آپ کے پاس بھیجے گا۔ اور جو بڈھا مرنے کے قریب ہو وہ یَاکَرِیْمُ پڑھتا رہے کیوں کہ کَرِیْمْ کے معنیٰ ہیں جو نالائقوں پر بھی مہربانی کرے تو جب یہ سمجھو کہ اب ہمارا اللہ کے یہاں ڈیپارچر ہونے والا ہے، بلاوا قریب ہے اُس زمانہ میں یَا کَرِیْمُ زیادہ پڑھتے رہو اور یَاکَرِیْمُ کے معنیٰ ہیں: اَلَّذِیْ یَتَفَضَّلُ عَلَیْنَا بِدُوْنِ الْاِسْتِحْقَاقِ 19؎ یعنی جو ہم پر ہمارے استحقاق کے بغیر مہربانی کردے، ہم تو جہنم کے قابل ہیں مگر وہ اپنی رحمت سے ہمیں جنت دے دے۔ محدثین نے کَرِیْمْ کےمعنیٰ لکھے ہیں کہ جو نالائقوں پر بھی مہربانی کردے وہ کریم ہے لہٰذا جب بندہ یَاکَرِیْمُ کہے گا تو اللہ کا کرم جوش میں آئے گا کہ میرا بندہ مجھے کریم کہہ رہا ہے لہٰذا میں کریم کی خوبی اس پر نازل کرتا ہوں اگرچہ تو تو نالائق ہے لیکن یَاکَرِیْمُ کہہ رہا ہے اور کریم کے معنیٰ ہیں جو نالائقوں کو بھی محروم نہ کرے تو ہم اس کو کیسے محروم کردیں؟ اس ظالم نے تو میرے ننانوے ناموں میں سے ایسا زبردست نام لیا ہے کہ اپنی نالائقی کو بھی لائق بنا گیا ؎ چلی شوخی نہ کچھ بادِ صبا کی بگڑنے پر بھی زلف اس کی بناکی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے کرم سے، یَاکَرِیْمُ کہنے سے گناہ گار کے بگڑے ہوئے حالات سنور جاتے ہیں بلکہ آج ہی سے یَاکَرِیْمُ کہو تاکہ جب خدا کا کرم آئے گا تو بندہ ولی اللہ ہوجائے گا ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اب دعا کرلیں کہ یا اللہ! ہماری جانِ ناتواں پر اپنی رحمت سے ایک کروڑ جانِ توانا عطافرما، اے اللہ! سارے عالم میں آپ کی محبت کے نشر کرنے میں اور اپنے کریم ہونے کے _____________________________________________ 19؎مرقاۃ المفاتیح: 212/3،باب التطوع، مکتبۃ امدادیۃ، ملتان